شیشے کا محل اور طلسم کدہ


پرانے وقتوں کا قصہ ہے کہ ایک ملک پر طلسم کدہ کے باسیوں کی حکمرانی تھی وہ عوام کی دل لگی کی خاطر ایک من پسند بادشاہ چنتے اور عوام کو یقین دلاتے کہ وہ ان کی امیدوں کا ترجمان ہے۔ بادشاہ کی خود پسندی کو جلا بخشنے اور عوام سے اس کا رابطہ منقطع کرنے کے لیے ایک ایسا محل تعمیر کرنے کا سوچا گیا کہ جدھر اس کی نگاہ جائے وہ اپنے آپ کو روبرو پائے، بادشاہ کی خود پسندی کا یہ عالم کہ اللہ اللہ، ہر طرف سے بہترین معمار اکٹھے کیے گئے اور ایک اونچی پہاڑی پر بادشاہ کے لیے محل تعمیر کیا گیا۔

یہ محل شیشے کا تھا اور شیشے اس طرح آویزاں کیے گئے تھے کہ بادشاہ جدھر دیکھتا بس اس کو اپنا آپ نظر آتا اور اس طرح سے عکس نظر آتا کہ وہ حقیقت سے کہیں زیادہ دراز قامت اور خوبصورت دکھتا اور محل کو اس طرح سے تعمیر کیا گیا تھا کہ محل جو خوشامدی وزیروں مشیروں سے ہمہ وقت بھرا ہوا ہوتا ہے ان کی آوازیں کئی گنا زیادہ ہو کر گونجتی تھیں، یوں لگتا تھا کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی آوازیں ہوں۔ حقیقتاً جس پہاڑی پر یہ محل قائم کیا گیا تھا وہ باقی ملک سے پانچ میل کے فاصلے پر واقع تھا اور اس کے اردگرد بادشاہ کو مصنوعی ترقی کا احساس دلانے کے لیے ایک مصنوعی شہر بسایا گیا تھا جو ایسے لوگوں سے بھرا گیا تھا جو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے اور طاقت ان کے لیے ایک نشہ تھا جس میں دھت بدمست ہاتھیوں کی طرح وہ اپنے لیے مزید اقتدار اور دولت کے حصول میں وہ ایک دوسرے سے بھڑ جاتے اور اس میں کچلے وہ عام لوگ جاتے جن کو دو وقت کی روٹی کے لالے تھے۔

اس پر سونے پر سہاگہ بادشاہ کی جان طلسم کدہ کے جادوگر کے ہاتھ میں تھی اور طلسم کدہ ایسا کہ جو کوئی عوام میں سے اندر گیا وہ واپس نہ لوٹا صرف وہ لوگ جن کو جادوگر خود سے منتخب کرتا ان کو یہ اعزاز حاصل ہوتا کہ وہ اس کے اندر جادوگر کے دربار میں حاضری دے سکیں۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لیے اس طلسم کدہ میں موجود پیالے میں سے گھونٹ بھر کر جادوگر سے اپنی وفاداری ثابت کرنی ہوتی تھی کہا جاتا ہے کہ اس پیالے کو عوام کے خون سے بھرا جاتا تھا واللہ علم وہ جانے یا طلسم کدہ والے جانے، لیکن روایت ہے کہ جس نے بھی اس پیالے سے گھونٹ بھر کر وفاداری ثابت کی اس نے عوام کا خون چوس چوس کر اپنے محلات تعمیر کیے، عوام کے اندر مذہبی تعصب کے بیج بوئے، بے روزگاری، صحت اور تعلیم کے فقدان کے ساتھ مذہبی انتہا پسندی نے لوگوں کو دولے شاہ کے چوہے بنا دیا اور اس پر طرح یہ کہ ان کی آمدنی کے اوپر لیا گیا لگان سے تنخواہ پانے والے سرکار کے افسران ان کو اپنا غلام سمجھتے اور ہر طرف لوٹ مار کرتے اور ان کو باور کرتے کہ وہ بادشاہ سے بھی بڑے اور سفاک حاکم ہیں، عدالتوں کے قاضی انصاف کرنے کی بجائے عوام کو عدالتوں کے چکر لگواتے اور ان کے مسائل کے حل کرنے کی بجائے انصاف کے عمل کو اتنا لمبا اور مشکل عمل میں تبدیل کر دیا جاتا کہ بے قصور مر جانے کے بعد لاش کی صورت میں جیل سے نکلتے اور حکومتی عہدیداران ریاستی اداروں پر حملے کے بعد بھی دودھ کے دھلے نکل کر عوام کے سر پر ناچ ناچ کر ان کو اخلاقیات کا درس دیتے۔

درس بڑی دلچسپ چیز ہے، طلسم کدہ والوں نے ایسے عالم حضرات کی خدمات حاصل کیں جو دن رات عوام کو ایسے امور میں الجھا کے رکھتے کہ طلسم کدہ اور محل کی سرگرمیوں سے ان کی توجہ ہٹی رہتی اور ہر طرح کی عوام کے مزاج کے مطابق عالم ڈھونڈے جاتے اور ایسے عالم بھی ہوتے کہ عوام سے دھرنے دلواتے، خونریزی ہوتی اور بادشاہ طلسم کدہ کے آگے گھٹنے ٹیکتا۔ سرکاری افسران، علما، عوام پر مسلط کیے گئے نمائندگان کا ایسا نیکسس بنایا گیا کہ عوام کا دم گھٹتا لیکن وہ مرتے نہیں نیم مردہ حالت میں موجود رہتے اور محل اور طلسم کدہ کا کاروبار چلتا رہتا۔

طلسم کدہ کے جادوگر اگرچہ اپنی پسند کا بادشاہ لگاتا لیکن جب بادشاہ کو اپنی مرضی چلانے کا شوق چڑھتا تو اس کی شامت آتی اس کے نیچے سے تخت کھینچ لیا جاتا اور تختے پر چڑھا دیا جاتا یا زندان میں بند کر دیا جاتا یا جلاد وطن کر دیا جاتا۔ بادشاہ کے لیے عوامی اعتماد حاصل کرنے کے لیے طلسم کدہ والوں نے جن لوگوں کو طلسم کے پیالے سے گھونٹ بھروا کے چنا تھا ان کو مختلف گرہوں میں تقسیم کر دیا یہ سب گروہ آپس میں تخت کے لیے لڑتے کیونکہ جس کی بھی حمایت سے ان کے درمیان سے بادشاہ منتخب ہوتا تو ان سب کے اوپر دولت کی دیوی مہربان ہو جاتی اور طلسم کدہ اور محل کے باسی شیر و شکم ہو جاتے اور سب گنگا نہاتے۔

اس لڑائی کو جو وہ طلسم کدہ والوں کے ایما پر اپنے ذاتی دولت کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے لڑتے اس کو وہ عوام کے کندھے پر رکھتے اور عوام کے اوپر احسان کرتے اور جب مار کھانے کا موقع آتا تو عوام کو آگے کرتے۔ عوام صرف محل کے بادشاہ، طلسم کدہ کے جادوگر، قاضی اور سرکاری افسران سے مار نہ کھاتے بلکہ جادو کے ڈبے پر نمودار ہونے والے اداکاروں کے بھی اداکار تجزیہ نگاروں اور لکھاریوں کی بھی بھینٹ چڑھتے کہ ان میں سے اکثر اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے جس کے دہانے طلسم کدہ اور محل سے جا ملتے اور عوام کی توجہ ان مسائل سے ہٹائے رکھتے جو ان کے حقیقی مسائل تھے اور دولت اور اختیار کی منصفانہ تقسیم کا خیال ان کے ذہن میں لادینیت کے ساتھ جوڑ دیتے، ان میں سے جو چند سچ بولنے کی کوشش کرتے وہ ملازمت اور کبھی زندگی دونوں سے ہاتھ دھوتے۔

ان کے ساتھ کچھ سر پھرے نوجوان ہوتے وہ تو ایسے صفحہ ہستی سے غائب ہوتے کہ ان کے گھر والے ان کی تلاش میں زندہ لاش بن جاتے۔ رہی سہی کسر مذہبی نفرت کی آگ پوری کرتی۔ یہ کہانی اپنے آپ کو مسلسل دہراتی اور سنا ہے کہ تنگ آ کر وہاں کے عوام پتھر کے ہو گئے اب ان کو جو بھی آواز دیتا وہ گونج کر واپس آجاتی اور وہ وادی وحشت کی وادی کہلاتی ہے ادھر سے گزرنے والے مسافروں کو بڑے بزرگ نصیحت کرتے ہیں کہ جب گزریں تو محل اور طلسم کدہ سے ان کو جو صدائیں بلائیں اس پر دھیان نہ دیں ورنہ وہ بھی اس وادی کے عوام کی طرح پتھر کے ہو جائیں گے اور پھر ان کے ساتھ اہل ہوس جو بھی سلوک کریں وہ بے جان، بے دماغ اسے برداشت کریں گے اور ”تخت الٹائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے“ ہمیشہ ایک خواب رہے گا۔

(یہ ایک فرضی کہانی ہے کوئی بھی جو مماثلت ڈھونڈے وہ جا کر ٹھنڈا گلاس پانی کا پیے سکون کرے، ٹی وی دیکھے اور، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اپنا گیان بکھیرے، شکریہ ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments