سماجی زندگی میں سیاست دانوں کا کردار


انسانی زندگی میں ہزاروں مسائل ہوتے ہیں جو بظاہر کسی بڑے رہنما یا وڈیرے کو نظر نہیں آتے ہیں۔ یہ سیاست دان اور حکمران اپنے آپ کو انسانیت کا مسیحا کہنے والے انسانی زندگی کا وجود تک نہیں جانتے ہیں کیو کہ وہ صرف اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسرے کی بات کر نا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ اس طرح ہی ہماری حکومت اور اپوزیشن کا حال ہے جو اقتدار کی حوص میں اپنے تمام معاشرے کو بلی پر چڑھانے کے لئے تیار ہیں ان کے سامنے صرف ان کے ذاتی مفادات ہی ہیں جو ان کے خون میں نشے کی طرح رچ چکی ہے۔ ہر آنے والے دن ایسا ماحول بنایا جا تا ہے، جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔ آخر حقیقت کیا ہے۔ ہم کیسے اس دہشت زدہ ماحول سے نکل سکتے ہیں۔ روز روز کا کھیل تماشا دیکھ دیکھ کر اب تو جی چاہتا ہے کہ کسی دور ویرانے میں اپنی زندگی گزاری جائے۔ بے شک قحط ہو بے شک لباس پہنے کونہ ہو مگر ان وقت کے منافقوں سے بچا جا سکے جو ہم جیسے غریبوں کا خون چوس چوس کر اپنے آپ کو اقتدار میں لے کر آنے میں کامیاب ہوتے ہیں مگر ہم پھر بھی اسی غربت زدہ زندگی کو اپنے سینے سے لگا کر ان وقت کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی طرف اپنی ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں مگر ہماری نظریں ہر بار خالی کی خالی ہی لوٹتی ہیں۔

آخر کیوں؟ کیا ہمیں اس معاشرے میں آزادانہ زندگی گزارنے کا حق نہیں۔ کیا ہمارے بچے ان کے بچوں کی طرح اچھے سکول اور اچھے لباس سے ہمیشہ محروم ہی رہیں گے آخر کون سی چیز ہے جو ان میں ہے اور ہم میں نہیں ہے۔ آخر میرے ان وسوسوں کی رہنمائی کون کرے ، کیوں میں اس قدر تھکی ہوئی گفتگو کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں جس میں صرف شکایات کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر کچھ سیاسی رہنماؤں کو ایک ساتھ بیٹھ کر شراب نوشی کرتے ہوئے دکھایا گیا میری سوچ دھنگ رہ گئی کہ یہ وہی انسان ہیں جو چند دن پہلے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے مگر آج ایک پیالہ ایک نوالہ ہیں تو آخر ہم لوگ ان کی جھوٹی کہانیوں پر کیوں اعتبار کر لیتے ہیں۔

کیا ہم شعور نہیں رکھتے۔ کیا ہمیں ہمارے معاشرے میں رہنے والے غریب بھائیوں کی فکر نہیں ہے ہم ان کی وجہ سے اپنے سب رشتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان سیاست دانوں کی وجہ سے روز کتنے گھر خراب ہوتے ہیں کسی نے بھی سوچا کیا کوئی ہے جو ایسی سوچ رکھتا ہو۔ گزشتہ سالوں کی بات جب ایک ایم این اے کی وجہ سے ایک برادری کے بزرگوں نے اپنے گھر کی عزتوں کی مدد سے ایک دوسرے کو واسطے ڈالے فقط چند ووٹ کی خاطر ووٹ نہ ملنے پر دونوں خاندانوں نے اپنی زندگیوں کو الگ الگ کر لیا۔ کیا فائدہ ہوا اور کیا مفاد حاصل ہوا۔ اصل میں ہمارے معاشرے میں ہر کام فقط مفاد کے لیے کیا جا تا ہے۔ ذرا سوچے جن کے لیے ہم اپنا سب کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ اگلے الیکشن میں نظر ہی نہیں آتے۔ خدا کے واسطے زرا سوچیے اور ان منافقوں کی چالوں سے نکل آئیے۔ تب ہی ہم کسی حد تک سکون محسوس کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments