ٹائلٹ پیپر خریدیں یا میدہ؟ یورپی باشندوں پر جنگ کا خوف طاری!


یورپی باشندے یوکرین جنگ کے سنگین نتائج سے بے حد خوفزدہ ہیں۔ اشیائے خورد و نوش کی قلت کا خوف اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ پٹرول اور گیس کی ہوش ربا قیمتیں۔ عوام بنیادی اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی پر اتر آئے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے ایک ایسے ملک سے تعلق رکھنے کے باوجود، جس نے اپنے قیام سے اب تک چار جنگیں، جن میں سے ایک غیر علانیہ تھی، دیکھی ہیں، میں جرمنی میں ان دنوں بہت ہی غیر معمولی صورتحال کا تجربہ کر رہی ہوں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ جرمن عوام کے اذہان پر دو عالمی جنگوں کی یادیں اور جنگ کے بعد کی تباہ کن صورتحال کا خوف اب بھی باقی ہے، جرمنی اقتصادی اور معاشرتی اعتبار سے جتنا ترقی کر چکا ہے، اس کے بعد جرمن عوام کا روس اور یوکرین کی جنگ سے اتنا خوفزدہ ہونا مجھے ابتدائی طور پر معیوب لگ رہا تھا۔ لیکن میں نے جب اس کی وجوہات پر گہرائی سے غور کیا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ جرمن عوام اتنے پریشان کیوں ہیں؟

میں اکثر بازاروں، دکانوں یا سپر مارکیٹس میں خریداری کے دوران دیگر گاہکوں کے رویے پر غور کیا کرتی ہوں۔ جرمنی میں کیونکہ دیگر یورپی اور یورپ سے باہر کے ممالک کے باشندے بھی آباد ہیں، اس لیے مختلف قومیتوں اور مختلف معاشرتی و اقتصادی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کے رویوں پر بھی غور کرنے کا موقع ملتا ہے۔

ابھی جب سے یوکرین کا بحران شروع ہوا ہے، تب سے ایسی دکانوں میں قومیت، زبان و نسل کے فرق سے بالاتر تقریباً تمام گاہکوں کا ایک ہی رویہ نظر آ رہا ہے۔ ہر ایک آٹے، شکر، کوکنگ آئل اور نوڈلز کے علاوہ زیادہ سے زیادہ ٹائلٹ پیپرز خریدنے کی کوشش میں ہے جبکہ مذکورہ بنیادی ضرورت کی اشیاء میں سے اکثر اب مارکیٹ سے غائب ہوتی جا رہی ہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں ایک افغان باشندے کی اشیائے خور و نوش کی دکان پر گئی۔ دکاندار سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے موضوع پر بات ہونے لگی۔ اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں بنیادی اشیائے خور و نوش کی ذخیرہ اندوزی کر لوں۔ آنے والے دنوں میں غالباً اس کی دکان خالی ہو جائے گی کیونکہ ہر کوئی سامان جمع کرنے کی کوشش میں ہے اور روس یوکرین جنگ کے سبب سامان کی سپلائی بند پڑی ہے۔

مہنگے داموں کے باوجود صارفین اپنی ضرورت کی اشیاء کئی گنا زیادہ تعداد میں خرید کے لے جا رہے ہیں۔ میں نے اس افغان دکاندار سے پوچھا کہ کیا اس نے بھی اپنی ضرورت کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر لی ہے؟ اس کے جواب نے میرے ذہن کے کئی دریچے کھول دیے اور مجھے اس وقت یورپ کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال کے کئی پہلوؤں کا جائزہ لینے پر مجبور کر دیا۔

افغان دکاندار کا کہنا تھا، ”ہم تو نمک روٹی پر زندہ رہنے کے عادی ہیں، جنگ کے دوران پیدا ہوئے، جنگ ہی میں پروان چڑھے، ابھی تک ہمارا ملک آزاد نہیں ہوا اور وہاں اب بھی موجود بیش بہا قدرتی وسائل پر بڑی طاقتوں کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں۔ ہمارا ملک پرامن نہیں ہو سکتا۔ ہمیں روٹی ملے تو کھا لیتے ہیں، نہ ملے تو بھی جی لیتے ہیں مگر یورپی باشندے اب کیسے ان حالات کا مقابلہ کریں گے؟ یہ تو کیک کھانے کے عادی ہیں۔“

مزے کی بات یہ ہے کہ پورے یورپ، خاص طور سے جرمنی کا کیک اور کافی کلچر بہت مقبول ہے۔ یورپی عوام میدے کا استعمال بہت کرتی ہے۔ یہاں میدے سے بنی اشیاء سب سے زیادہ کھائی جاتی ہیں۔ اب یوکرین اور روس کی جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدے کی قلت ہو گئی ہے کیونکہ یوکرین دیگر یورپی ممالک کو میدہ اور روس خام تیل کے علاوہ کوکنگ آئل فراہم کرنے والا اہم ملک ہے۔

چند ہفتوں سے میدے اور کوکنگ آئل کی قلت کا موضوع ہر طرف زیر بحث ہے۔ اس تناظر میں جب افغان دکاندار نے یہ کہا کہ یورپی باشندے اب میدے کے بغیر کیسے گزارا کریں گے تو میرے ذہن میں یورپی تاریخ کے اس اہم واقعے نے ہلچل مچا دی، جسے اٹھارہویں صدی کا سب سے بڑا اور شدت آمیز انقلاب کہا جاتا ہے۔

فرانسیسی انقلاب سے قبل فرانس کی آخری ملکہ ماری اینٹوانیٹ تھیں۔ ماری اپنے دور کے سیاسی حالات کا شکار ہوئیں۔ بہت سے متنازعہ معاملات اور واقعات کو زبردستی ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ اس وقت پورا یورپ شدید سیاسی رسہ کشی اور شاہی خاندانوں کی اقتدار کی جنگ کا شکار تھا۔

دوسری طرف عوام بیدار ہو چکے تھے، اپنے بنیادی حق کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے انہوں نے گریز نہ کیا۔ ماری اینٹوانیٹ سے منسوب ایک قول تاریخ کی کتابوں میں ہمیشہ کے لیے درج کر دیا گیا۔ گو کہ یہ امر بالکل متنازعہ ہے کہ آیا کوئن ماری اینٹوانیٹ نے واقعی یہ کہا تھا، کیا یہ حقیقت میں انہی کے الفاظ ہیں یا نہیں؟ لیکن یہ الفاظ فرانسیسی انقلاب کو مزید ہوا دینے کا سبب بن گئے۔ یہ واقعہ تاریخ کی کتابوں میں اس طرح درج ہے کہ 1789 ء کے آس پاس ایک موقع پر جب کوئن ماری کو بتایا گیا کہ فرانسیسی رعایا کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے تو بادشاہ لوئی XVI کی ملکہ ماری اینٹوانیٹ نے ’جیسا کہ گمان کیا جاتا ہے‘ گہری سانس کے ساتھ کوئی خوش مزہ چیز سونگھتے ہوئے کہا تھا، ”انہیں کیک کھانے دو۔“ ملکہ ماری سے منسوب یہ قول زوال پذیر بادشاہت کی ایک نفرت انگیز علامت بن گیا۔ حالانکہ زیادہ تر مؤرخین کے مطابق یہ ان کے خلاف پروپیگینڈا کے لیے گڑھا گیا تھا۔ یاد رہے کہ فرانسیسی انقلاب کے دوران کوئن ماری کا بھی سر قلم کر دیا گیا تھا۔

ملکہ ماری اینٹوانیٹ ایک انتہائی ذہین اور ہمدرد خاتون تھیں۔ وہ اپنے شاہانہ طرز زندگی کے باوجود غریب عوام کے لیے حساسیت کا جذبہ رکھتی تھیں اور فلاحی کاموں کے لیے دل کھول کر عطیہ دیا کرتی تھیں۔ تاریخ کا یہ واقعہ ایک بڑا ثبوت ہے اس امر کا کہ کس طرح الفاظ کی ہیر پھیر اور اس کے جائز و ناجائز استعمال یا اسے کسی سے غلط منسوب کر کے پروپیگینڈا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے کتنے سنگین اثرات رونما ہو سکتے ہیں۔

روس اور یوکرین کی جنگ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور میڈیا پروپیگینڈا کے دور میں ہو رہی ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور نہ جانے کتنے قسم کے نت نئے پلیٹ فورمز مہلک ہتھیاروں سے زیادہ کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔ یورپ کی موجودہ صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی، یورپی عوام کا مستقبل کیسا ہو گا؟ اس کا دار و مدار بڑی طاقتوں کے رہنماؤں اور سیاستدانوں پر ہے۔ ان کا تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے انتہائی سوجھ بوجھ اور دور اندیشی کا مظاہرہ ہی یورپی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر خطوں کے انسانوں کے بہتر مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے اردو

کشور مصطفیٰ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

کشور مصطفیٰ

یہ مضامین ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کی سیینیئر ایڈیٹر کشور مصطفی کی تحریر ہیں اور ڈوئچے ویلے کے تعاون سے ہم مضمون شائع کر رہے ہیں۔

kishwar-mustafa has 46 posts and counting.See all posts by kishwar-mustafa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments