کپتان کے اندازِ حکومت کا پوسٹ مارٹم – حصہ اول
جو قلم کار عمران خان پر تنقید و طنز کے وار کرتے نہیں تھکتے حتی کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے بھی قبل صف ماتم بچھا کر بیٹھے تھے، ان سب ناقدین و حریفوں اور کالم نویسوں کو ہم کچھ دیر کے لیے فراموش کر دیتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو ٹٹولتے ہیں جنہیں تاریک سرنگ میں روشنی کی کرن عمران خان کی صورت میں نظر آتی تھی۔ جنہیں یہ امید تھی کہ عمران خان ہمارا نجات دہندہ ثابت ہو گا، ہمیں منجدھار سے نکال کر کنارے ساحل کرے گا، ہمارے مدفون خوابوں کو حقیقت کے سبزہ زاروں میں جا گزین کردے گا۔
عمران خان کے حامی امید کرتے تھے کہ تارکین وطن پردیسی پناہ گاہوں کو ترک کر کے اپنے گھونسلوں میں واپس آ جائیں گے۔ عمران خان کے پرستار آس لگائے بیٹھے تھے کہ ملک میں شدت پسندی و فرقہ واریت گزشتہ زمانوں کا قصہ بن جائے گی، ملک امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گا۔ پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی جد و جہد بلا آخر ایک خوبصورت موڑ پر منتج ہو گی۔ عمران خان پچیس سال تک جس خواب کی کشیدہ کاری و تزین و آرائش کر تا رہا وہ خواب ایک ٹھوس حقیقت کی صورت میں اس کے حریفوں کا تمسخر اڑائے گا۔
اب اگر مندرجہ بالا امیدیں آدھی سے بھی کم پوری ہو چکی ہیں تو عمران خان نے بازی جیت لی ہے۔ لیکن اگر موجودہ حالات امیدوں کے برخلاف کھڑے نظر آتے ہیں تو پھر پرستار کیا جواز پیش کریں گے؟ عمران خان کے حامی و قدردان یہ جواز پیش کریں گے کہ ہمارا لیڈر اندرونی و بیرونی سازشوں اور بدعنوان ٹولوں اور ماضی کے لٹیروں کی وجہ سے ملک کو جنت نظیر نہ بنا سکا۔ پرستاروں، مداح نگاروں کے اس جواز پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ حقیقی لیڈر وہی ہوتا ہے جو بدترین حالات میں اندرونی اور عالمی سازشوں کے درمیان راستہ بناتے ہوئے ملک کو ٹریک پر چڑھاتا ہے۔
حقیقی لیڈر روتا دھوتا اور ماضی کی لکیریں نہیں پیٹتا رہتا، وہ مشکل ترین حالات میں بہتر مستقبل کی راہیں تلاش کرتا ہے جس طرح مہاتیر محمد، طیب اردگان اور سینگا پور کے سابق فرمانروا لی کؤن یی نے اپنے اپنے ملکوں میں کیا۔ اب اس نکتہ پر عمران کے حامی یہ استدلال پیش کر سکتے ہیں کہ حقیقی لیڈروں کو جس قدر وقت نصیب ہوا۔ ہمارے کپتان کو اتنا وقت نہیں ملا، بھلا تین چار سالوں میں ملک کے اندر کوئی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے؟ کیا فقط ایک تن تنہا شخص قلیل عرصے میں ملکی کلچر کو تبدیل کر سکتا ہے؟
جہاں تک قلیل وقت کے شکوے کی بات رہی تو پر ستاروں سے التماس ہے کہ وہ ذرا ان کامیاب اور حقیقی لیڈروں پر تحقیق کر کے دیکھ لیں کہ کیا ان لیڈروں نے اپنے حریفوں کو للکارنے، تقاریر و لیکچر دینے، خیالی پلاؤ پکانے اور وسیم اکرم پلس کی تعمیر سازی کرنے پر سارا زور لگایا یا پھر حقیقت میں واضح مثبت تبدیلیوں کو اپنے ملک میں رائج کرتے ہوئے نظر آئے؟ عرض یہ ہے کہ جب کوئی حقیقی لیڈر اپنے ملک کو درست سمت میں لا جانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لیے قلیل وقت بھی کشادہ ہو جاتا ہے اور جس نے صرف تقریریں کر کے، گیدڑ دھمکیاں اور بڑھکیں مار کر عوام کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے تو اسے ہیرو کے لیے صدیاں بھی کم پڑ جاتی ہیں۔
عمران خان کے مداح یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک اکیلا شخص اخلاقی و معاشی طور پر دیوالیہ ملک کو ٹھیک نہیں کر سکتا۔ مداحوں نے ٹھیک فرمایا لیکن سوال یہ ہے کہ کس نے دل نشین و سحر انگیز امیدوں کے عالی شان قلعے تعمیر کیے؟ کس نے یہ خواب دکھایا کہ میں ملک کی معاشی پالیسیوں کو بیرونی سہاروں سے آزاد کروا لوں گا؟ میں چند مہینوں میں ملک کی تقدیر بدل ڈالوں گا۔ میں پولیس کو مثالی ادارہ بنا دوں گا اور کس نے سستے انصاف کی فراوانی کے دعوے کیے؟ وغیرہ وغیرہ۔
اب کوئی کپتان کا پرستار یہ موقف بھی اختیار کر سکتا ہے کہ عمران خان نے کوشش تو کی، اس نے ملک کو ٹریک پر چڑھانے کے لیے اپنی جان تو ماری۔ لیکن مقام افسوس و رنج و تاسف و درد و گریہ زاری یہی ہے کہ عمران خان نے کوشش ہی نہیں کی۔ عمران خان اقتدار کے لیے اقتدار میں آیا اور اپنے اقتدار کو بچاتے ہوئے اقتدار سے خارج ہو گیا۔ عمران خان سیاست کے لیے سیاست میں آیا اور بدترین سیاسی داؤ پیچ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہو گیا۔ عمران خان کی طرز حکمرانی ”میں نہیں چھوڑوں گا“ ۔ سے شروع ہوتی ہے اور اسی گیدڑ بھبکی پر اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔ (جاری ہے )
- صحت و تندرستی کے لیے فری ٹانک - 21/04/2024
- بہروپیا - 06/05/2023
- کیا قدرت عمران خان کے ساتھ ہے؟ - 10/04/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).