نیوٹرل کون؟


آج کل ہر طرف نیوٹرل کا چرچا ہو رہا ہے۔ کبھی شہر اقتدار میں، کبھی راولپنڈی میں، کبھی لاہور میں، کبھی کراچی میں، کبھی گجرات میں، کبھی چوک چوراہوں میں تو کبھی جلسوں میں نیوٹرل کا چرچا ہو رہا ہے۔ وہ نیوٹرل کیا ہوئے ہر کوئی خود کو بادشاہ سمجھنے لگ گیا ہے۔ کیا انسان نیوٹرل نہیں ہو سکے؟ اور کیا جانور ہی صرف نیوٹرل ہوتے ہیں؟ اگر کسی کو کتے پالنے کا شوق ہے تو وہ بخوبی جانتا ہے کہ کتا کبھی نیوٹرل نہیں ہوتا۔ اگر آپ ایک کتے کو تین چار سال اپنے گھر میں رکھیں۔

اس کی خوب خدمت کریں۔ اس کو اچھی اور اعلیٰ قسم کی خوراک کھلائیں۔ اس کو مہنگے مہنگے شیمپو سے ہفتے میں ایک بار نہلائیں۔ جب واک کرنے جائیں تو اس کو بھی ساتھ لے کر جائیں۔ تو یقیناً آپ کے بچے بھی اس کتے سے مانوس ہو جائیں گے۔ پھر آپ اس کتے کو جب بھی آواز دیں گے وہ فوراً حاضر ہو گا۔ آپ بال پھینکیں گے تو وہ فوراً پکڑ کر بھی لائے گا۔ سرکس والے کتے اس کی بڑی مثال ہیں۔ اگر کسی کو گھوڑے رکھنے کا شوق ہے تو بھی بہتر انداز میں جانتا ہو گا۔

خصوصاً ریس والے گھوڑے رکھنے کا شوق ہو تو ہمیشہ وفادار گھوڑے اپنے مالک کو کبھی مایوس نہیں کرتے۔ اچھا گھوڑا ہر ممکنہ حد تک اپنے مالک کو ہر جگہ سرخرو کرتا ہے۔ گھوڑے کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی ریس میں بھی میرے مالک کو میری وجہ سے شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میں کالج میں پڑھتا تھا تو اکثر سڑکوں پر مداری والے تین، چار سانپ سڑک پر چادر بچھا کر مداری کر رہے ہوتے تھے۔ مداری کئی کئی منٹ تک بین بجاتا پھر جب کوئی سانپ چادر سے نیچے جانے کی کوشش کرتا تو مداری فوراً آواز لگاتا ”ہٹ ہٹ“ تو فوراً سانپ واپس باقی سانپوں کے پاس آ جاتا۔

اگر آپ کا کبھی آزاد کشمیر یا سوات کی طرف چکر لگا ہو تو یقیناً آپ نے دیکھا ہو گا کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں پہاڑوں پر بکریوں کے ریوڑ لے کر چلی جاتی ہیں۔ جب بکریاں پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل جاتی ہیں تو بچیاں ایک مخصوص انداز میں ان بکریوں کو آواز دیتی ہیں تو بکریاں فوراً محسوس کر لیتی ہیں کہ اوپر جانے میں خطرہ ہے اس لیے مالک مجھے نیچے سے آوازیں دے رہا ہے۔ اس طرح اگر آپ کسی گاؤں میں جائیں تو آپ کو اکثر گاؤں میں گندے پانی کے جوہڑ نظر آئیں گے جن میں گرمیوں کے دنوں میں بھینسیں خوب مزے سے نہاتی ہیں۔ جو لوگ گاؤں میں رہتے ہیں وہ زیادہ بہتر سمجھتے ہوں گے ۔ بھینسوں کے مالک کے مطابق اگر بھینس کھلے پانی میں نہاتی ہے تو سکون محسوس کرتی ہے اس کا دودھ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس چالیس، پچاس بھینسیں ہیں تو کون دو دو گھنٹے پانی والی موٹر چلا کر ان بھینسوں کو فردا فردا نہلائے۔ اکثر اوقات جوہڑ میں ایک ہی وقت میں کئی مالک اپنی بھینسیں نہلانے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔

بھینسیں اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ جیسے ہی وہ خود کو فریش محسوس کرتی ہیں تو باری باری جوہڑ سے باہر نکلنا شروع کر دیتی ہیں۔ ایک بھینس نکلتی ہے تو باقی بھی اس کے پیچھے نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک ہی وقت میں جوہڑ میں درجنوں بھینسیں ہوتی ہیں لیکن ہر بھینس کو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری حویلی یا باڑا کہاں ہے اور ہم نے واپس کہاں جانا ہے۔ اگر غلطی سے کوئی بھینس کسی دوسرے باڑے میں چلی بھی جائے تو وہاں چارہ تک نہیں کھاتی اس کی ہر ممکنہ کوشش ہوتی ہے کہ واپس اپنے باڑے میں چلی جائے۔

یہ چند ایک جانور کی مثالیں ہیں جن کے بارے میں آج کل عمران خان شور مچا رہے ہیں کہ جانور نیوٹرل ہوتے ہیں۔ جانور انسان سے زیادہ عقل مند اور وفادار ہوتے ہیں۔ اصحاب کہف کے کتوں، حضرت صالح کی اونٹنی، ہجرت مدینہ کے دوران حضور ﷺ کے ساتھ مدینہ پہنچنے والی اونٹنی اور کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے زیر اہتمام رہنے والے مرتجز کی مثال بھی شاید کافی ہوگی۔

آئی ایس آئی کے نئے تعینات ہونے والے ڈی جی ایک انتہائی پروفیشنل جنرل ہیں۔ ان کا ماضی اس کی گواہی دیتا ہے کہ وہ صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں احسن انداز سے سرانجام دینے کو ترجیحی دیتے ہیں۔ جنرل ندیم انجم تاحال خود کو مکمل طور پر نیوٹرل ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ سیاست میں مداخلت کو ناپسندیدہ عمل سمجھتے ہیں۔ اس کے متعلق گزشتہ دنوں ان کی جانب سے منسوب کر کے ایک خبر بھی اخبار کی زینت بنی تھی کہ انہوں نے اپنے تمام اہلکاروں کو سیاست سے مکمل دور رہنے کا حکم بھی جاری کر دیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کون ہیں؟

لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نومبر 2020 سے کراچی میں کور کمانڈ کے طور پر تعینات تھے۔ انہیں اس سے دو ماہ قبل ستمبر 2019 میں میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ ندیم احمد انجم کا تعلق پاکستان آرمی کی پنجاب رجمنٹ سے ہے۔ وہ راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 77 لانگ کورس میں پاس آؤٹ ہوئے تھے۔ وہ کور کمانڈر کراچی سے قبل کمانڈنٹ سٹاف کالج کوئٹہ بھی رہ چکے ہیں اور اس کے علاوہ (آئی جی) (ایف سی) بلوچستان کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

وہ بطور بریگیڈیئر کرم ایجنسی (سابق فاٹا) تعینات میں رہے۔ انہوں نے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز برطانیہ، ایشیا پیسیفک سینٹر فار سکیورٹی سٹڈیز ہونولولو امریکہ سے تعلیم حاصل کی۔ بطور بریگیڈیئر، لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں انسٹرکٹر بھی رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ہنگو میں دو سال بریگیڈ کمانڈر کے طور پر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کا پورا کیریئر بے داغ ہے۔ دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ متعدد مرتبہ کور کمانڈر کانفرنسز اور اپنی تقریروں میں کہہ چکے ہیں وہ جمہوریت کے تسلسل کے حامی اور مضبوط پاکستان کے خواہاں ہیں۔

اب اگر دو بڑے اداروں کے سربراہان خود کو مکمل طور پر نیوٹرل ظاہر کر رہے ہیں تو عمران خان سمیت ان کے ارکان اسمبلی اور ان کا سوشل میڈیا سیل دونوں اداروں کے سربراہان کی گزشتہ ایک ہفتے سے کردار کشی کر رہے ہیں۔ کیا کوئی وزیر اعظم اپنی ہی فوج کے سپہ سالار اور اپنی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے خلاف بھی اس طرح کی زبان استعمال کر سکتا ہے؟ اداروں کے سربراہان کے متعلق ایسی زبان استعمال کر کے عمران خان بھارت کو کیا میسج دے رہے ہیں کہ ہماری فوج کے سربراہ ایک کمزور آدمی ہیں ان کی جیسے مرضی تذلیل کریں وہ جواب میں آپ کو کچھ نہیں کہیں گے؟ ایسا رویہ اداروں کو مضبوط کرنے والا نہیں بلکہ کمزور کرنے والا ہے۔ اگر فوج اور آئی ایس آئی خود کو سیاست سے دور رکھنا چاہتی ہے اور عوام میں اپنا وقار بحال کرنا چاہتی ہے حکومت، اپوزیشن سمیت ہر طبقے کو فوج کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ یاد رکھیں برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments