اکبر کی وہ پالیسیاں جن کے جاری رہنے سے ہندوستان کی تقدیر مختلف ہو سکتی تھی

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق، لاہور


 

اکبر
ماہرِ ہند آرتھر لیولین بشام کا کہنا ہے کہ ’اگر اکبر کی مذہبی رواداری کی پالیسیوں کو ان کے جانشینوں نے جاری رکھا ہوتا تو ہندوستان کی تاریخ بہت مختلف ہوتی۔‘

چند دن قبل ’اکبر نامہ‘ کا انگریزی زبان میں ترجمہ شائع ہوا ہے۔ سنہ 1556 سے 1605 تک ہندوستان کے مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی زندگی کی یہ کہانی نَو رتن کہلانے والے نو قریب ترین اور باکمال امرا میں سے ایک ابو الفضل نے فارسی زبان میں لکھی تھی۔

اس میں اکبر اور ان کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ اس دور کی جنگوں، اتحادوں اور سازشوں کا احوال بھی شامل ہے۔ ’دی ہسٹری آف اکبر‘ (اکبر کی تاریخ) کے عنوان سے شائع ہونے والے اس انگریزی ترجمے کے تعارف میں ہارورڈ میں مشرق قریب کی زبانیں پڑھانے والے وہیلر ایم تھیکسٹن لکھتے ہیں کہ غیر مسلم لوگوں کے مسلمان حکمران کے طور پر شہنشاہ کے کارنامے ہندوستان کے لیے ایک میراث ہیں۔

امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ اور نیو یارک یونیورسٹی لا سکول کے کلاسیکل لبرل انسٹیٹیوٹ میں فیلو ٹنکو وردراجن نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے تھیکسٹن کی بات کی تائید کی ہے۔

ان کے حوالوں کے مطابق انڈیا کی اشوکا یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد سنیل کھلنانی نے لکھا ہے کہ اکبر کے دور کو ’ہندو قوم پرستوں کے ان دلائل کی تردید کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ مسلم حکمرانی ہندوؤں کے لیے ایک تاریک دور تھا۔‘ امریکی ماہرِ ہند وینڈی ڈونیگر نے اکبر کو ’مغل حکمرانوں میں سب سے زیادہ تکثیریت پسند‘ قرار دیا ہے۔

’اکبر نامہ‘ شہنشاہ کے حکم پر لکھی گئی تھی جو جزوی طور پر ’ڈسلیکسیا‘ کے مرض کی وجہ سے ان پڑھ تھے۔ اس مرض میں الفاظ پڑھنے، پہچاننے، سمجھنے، یاد رکھنے، اور لکھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اکبر نامہ میں الفاظ کی موسیقیت بتاتی ہے کہ اسے بلند آواز سے پڑھنے کے لیے لکھا گیا ہو گا۔

سوانح نگار ایرا مکھوتی کا مشاہدہ ہے کہ چونکہ اکبر نے اپنی تمام رعایا کا غیر جانبدار شہنشاہ بننے کی کوشش کی، اس لیے ابوالفضل نے ’اکبر نامہ‘ میں شہنشاہ کا نسب (حضرت) آدم تک پہنچایا (جنھیں انھوں نے ’لمبے، گندمی رنگت اور گھنگھریالے بالوں والے اور خوبصورت‘ شخص کے طور پر بیان کیا)۔

اکبر نامہ میں شہنشاہ کے دربار میں مذہبی مباحث کا بیان بھی ہے۔ اکبر نے ایک ’عبادت خانہ‘ قائم کیا جہاں ہر جمعرات کو تمام مذاہب کے مقدس لوگ بحث کے لیے جمع ہوتے۔ ابوالفضل بتاتے ہیں کہ ’صوفی، فلسفی، علمائے دین، فقہا، سنی، شیعہ، برہمن، شکی، عیسائی، یہودی، صابی، زرتشتی، اور دیگر تمام مختلف گروہ آزادی سے لطف اندوز ہوتے۔‘

اکبر
مسیحی پادریوں کی اکبر کے دربار میں حاضری

وہ کہتے ہیں کہ شاہی دربار ’تمام قوموں کے عالموں‘ کے جمع ہونے کی جگہ بن گیا۔ ان کی تمام بحثوں میں ’شہنشاہ کی طرف سے بلند و بالا نکات اور باریک بین مشاہدات بیان ہوتے، اور وجودی اور الہیاتی حقیقتیں ان کی زبان سے ٹپکتیں۔‘ یہاں تک کہ اکبر نے اپنا عقیدہ ’دین الٰہی‘ بھی ترتیب دے لیا جسے تھیکسٹن ایک ’مختصر مدت کا ہم آہنگ مذہبی نظریہ‘ کہتے ہیں۔

’انڈیا: اے ہسٹری‘ میں جان کیئے نے اکبر کے نئے مذہب کو ’ان پڑھ ذہانت کی سادہ لوحی اور خود انحصاری‘ قرار دیا ہے۔ کیئے لکھتے ہیں کہ ’عبادت خانہ ’مختلف الخیال علما کا ایک حقیقی بازار‘ تھا۔ اور اکبر کے ذوق کو ان کے اختلاف میں ’ویسی ہی تسکین ملتی جیسی وہ عام طور پر ہاتھیوں کی لڑائی میں پاتے تھے۔‘

لارنس بِنیون اپنی کتاب ’اکبر‘ میں لکھتے ہیں: اسی زمانے میں وہ روایت ختم ہو گئی جو مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ آئی تھی اور اب تک قائم تھی کہ ہندوستانی مفتوحین کو جنگ کے بعد غلام بنا لیا جائے۔ سنہ 1562 میں اکبر نے جے پور کی ایک راجپوت شہزادی سے شادی بھی کر لی۔ یہی شہزادی آگے چل کر شہزادہ سلیم کی ماں بنی۔ یہ شادی اس بات کا ثبوت تھی کہ اکبر نے اب خود کو ہندوستان اور ہندوستان کی تقدیر کے ساتھ وابستہ کر دیا تھا۔‘

بنیون لکھتے ہیں کہ اکبر اس اصول پر سختی سے قائم تھے کہ ہندو اور مسلمان دونوں کے ساتھ عدل و انصاف کریں گے۔ اور اس رویے نے دور دور تک ان لوگوں کو ان کا وفادار بنا دیا تھا جو ان کے اٹل دشمن ہو سکتے تھے۔

انھوں نے لکھا ’1563 میں اکبر ہندوؤں کے لیے مقدس مقام متھرا میں کیمپ کیے ہوئے تھے۔ چیتے کا شکار ہو رہا تھا۔ اکبر کو یہ علم ہوا کہ سرکار نے ہندوستان کی تمام مقدس جگہوں کی زیارت پر ٹیکس لگا رکھا ہے جس سے لاکھوں روپیہ حاصل ہوتا ہے۔ اکبر کو یہ بات ناگوار گزری اور پھر تمام سلطنت میں اس ٹیکس کے ختم کیے جانے کا اعلان کر دیا گیا۔ اپنی اس فیاضی اور رواداری پر جوان شہنشاہ اس قدر مسرور ہوئے کہ جوش کے مارے متھرا سے آگرے کی طرف پیدل چل پڑے۔ چھتیس میل کا فاصلہ طے کرتے کرتے آخر میں ان کے ساتھیوں میں سے صرف دو تین گرتے پڑتے اُن کے ساتھ پہنچے۔‘

اپنے ہی سخت گیر علما کو ناراض کرتے ہوئے اکبر نے جبری تبدیلی مذہب کے خلاف آواز اٹھائی اور ہندوؤں پر عائد کردہ امتیازی ٹیکس یعنی جزیہ ختم کر دیا۔ ابوالفضل نے اس فیصلے کو اکبر کے ’شاندار فلاحی کاموں‘ میں سے ایک قرار دیا اور بہت سے مغل رئیسوں کو ’سطحی لوگ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا جنھوں نے جزیے کو برقرار رکھنے کے لیے احتجاج کیا۔

بِنیون کا کہنا ہے کہ ’جزیہ معاف کرنا بھی مالی منافع کی ایک زبردست قربانی تھی۔ ایک 22 سال کے نوجوان کا اس طرح کا رویہ انسان کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ فتوحات کی فطری خواہش پوری کر لینے کے بعد وہ پھر اپنی شخصیت کے دوسرے پہلو پر واپس آ جاتے ہیں، پھر فیاضی اور انسان دوستی ان کے دل و دماغ پر چھا جاتی ہے۔‘

اکبر کا مقبرہ
آگرہ میں اکبر کا مقبرہ

انسائکلوپیڈیا بریٹینیکا میں لکھا ہے: ’اکبر کی حکومت کی ایک قابل ذکر خصوصیت ہندو اور خاص طور پر راجپوتوں کی شرکت تھی۔ راجپوت شہزادوں نے مغلیہ خدمت میں جرنیلوں اور صوبائی گورنروں کی حیثیت سے اعلیٰ ترین عہدے حاصل کیے۔ غیر مسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک کو کم کیا گیا جس میں زائرین پر ٹیکس اور غیر مسلموں کی جانب سے فوجی خدمات کے عوض ادا کیے جانے والے ٹیکس (جزیہ) کو ختم کیا گیا۔ اکبر اپنی انتظامیہ میں ہر سطح پر ہندوؤں کا تعاون حاصل کرنے میں کسی بھی سابقہ مسلمان حکمران سے کہیں زیادہ کامیاب رہے۔‘

اکبر کی کامیابی کو ’حیران کن‘ قرار دیتے ہوئے جواہر لال نہرو نے دی ڈسکوری آف انڈیا میں لکھا ہے کہ اکبر نے ’شمالی اور وسطی ہندوستان کے متنوع عناصر میں یکجہتی کا احساس پیدا کیا۔‘

شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے 1679 میں جزیہ دوبارہ لاگو کر دیا۔

نہرو کا کہنا تھا کہ اورنگزیب نے ہندوستانی آبادی کے مختلف عناصر میں قائم مشترکہ ثقافت کو نظر انداز کر کے جو کچھ ان کے پیشروؤں نے حاصل کیا تھا اسے ختم کر دیا۔ نہرو نے دلیل دی کہ جب اورنگزیب نے ایک ہندوستانی حکمران سے زیادہ ایک مسلم حکمران کے طور پر کام کرنا شروع کیا تو مغلیہ سلطنت ٹوٹنے لگی۔

تاہم اشتیاق حسین قریشی اور بعض دیگر مصنفین اس کی وجہ شہنشاہ کی ہندوؤں میں بڑھتی مخالفت کو قرار دیتے ہیں جس کے بعد اورنگزیب کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ بچا کہ مزید مخصوص مسلم ریاستوں کی طرف بڑھ کر مسلمانوں کی حمایت حاصل کریں۔

آڈری ٹرشکے نے اورنگزیب پر اپنی کتاب میں لکھا ہے: ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے راہداری اور دیگر محصولات جو انھیں غیر قانونی لگے، کو کم کر دیا۔ اورنگزیب کے جزیہ کے دوبارہ نفاذ کی وضاحت بعد کے مؤرخین نے مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی ایک کوشش کے طور پر کی ہے، خاص طور پر مرہٹوں، راجپوت اور دکنی ریاستوں کے خلاف جنھوں نے بدعتیوں کا ساتھ دیا تھا۔

جے پور یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد ستیش چندر اپنے مضمون ‘سترہویں صدی میں جزیہ اور ہندوستانی ریاست‘ میں لکھتے ہیں کہ جزیے سے حاصل ہونے والی رقوم خاطرخواہ تھیں لیکن یہ ایک علیحدہ خزانے میں جمع ہوتیں جسے خزانہ جزیہ کہا جاتا اور یہ خیراتی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا۔ محمدن تھیوریز آف فنانس میں لکھا ہے کہ نادار ذمی سے جزیہ نہ لیا جاتا۔ سنہ 1704 میں قحط اور جنگ کے باعث تمام دکن کا جزیہ معاف کر دیا گیا تھا۔‘

اطالوی مورخ نکولاو منوشی کے مطابق جزیے کی بحالی کی مخالفت جہاں آرا بیگم سمیت امرا نے کی۔ ستیش چندر لکھتے ہیں کہ اورنگزیب کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد اسد خان اور ذوالفقار خان جزیے کے خاتمے میں پیش پیش تھے۔

مگر تب تک مذہبی تقسیم عیاں ہو چکی تھی۔

ماہرِ ہند آرتھر لیولین بشام کا کہنا ہے کہ ’اگر اکبر کی مذہبی رواداری کی پالیسیوں کو ان کے جانشینوں نے جاری رکھا ہوتا تو ہندوستان کی تاریخ بہت مختلف ہوتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments