مصر کا بازار اور سیاسی لحم فروشی


سیاست میں آج کل ”دلال“ کا بہت چرچا ہے، (زبان زد عام لفظ زیادہ مبتذل اور ناقابل اشاعت ہے۔) سوشل میڈیا پر ہر طرف اس گالی کا چرچا ہو رہا ہے، ٹویٹر پر تو ٹرینڈ بھی چلتا رہا ہے، واقعہ سب کو علم ہی ہو گا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور ڈاکٹر شہباز گل ایک اینکر کامران شاہد کے پروگرام میں تحریک انصاف کے منحرف اقلیتی رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کو بار بار ” ننگی گالی“ دیتے رہے، بے شرمی کی انتہا ہے کہ میزبان کامران شاہد نے ایک بار بھی شہباز گل کو نہیں ٹوکا اور نہ ہی ان کی مذمت کی

بہر حال، اب تو اس طوفان بدتمیزی کی قوم عادی ہو چکی ہے، سیاسی مچھندروں کی کسی بات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے، یہ ان کا دھندا ہے، جس طرح دین فروشوں کے لئے سب سے اہم صرف پیسہ ہی ہوتا ہے اسی طرح ایک سیاستدان کے لئے سب سے اہم اقتدار ہی ہوتا ہے، اقتدار کے بغیر ان کی موت ہوتی ہے، اسی لئے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے ووٹ بنک پر انحصار کرنے کے بجائے ڈیل کر کے حکومتیں لیتی ہیں اور پھر ان کی انا جاگ اٹھتی ہے اور وہ سیاسی شہید بننے کی پوری کوشش کرتے ہوئے عوام کو بیوقوف بناتے ہیں اور عوام ہمیشہ ہی بیوقوف بن جاتے ہیں

ٹاک شو کے بعد ایک موقع پر صحافیوں سے گفتگو کے دوران شہباز گل سے ایک خاتون صحافی نے سوال کر دیا کہ آپ کس طرح کی زبان بولتے ہیں، اب جتنی سوشل میڈیا پر ”گلیر ترجمان“ کی بے عزتی ہو چکی تھی وہ اس پر شرمندہ ہونا بھی نہیں چاہتا تھا کیونکہ شرم والی بات اقتدار میں آ کر دفن ہوجاتی ہے، سوال پر موصوف اپنی بیان کردہ ”گالی“ کو معزز لفظ ثابت کرنے کے چکر میں مزید بونگیاں مار نے لگے

فرماتے ہیں کہ پنجابی زبان ہی ایسی ہے کہ دوسری زبانیں بولنے والے اس کو غلط سمجھ لیتے ہیں، شہباز گل کی بات سے کسی حد تک اتفاق کرتا ہوں مگر جس طرح وہ پنجابی زبان کو پیش کر رہے تھے ایسا بالکل بھی نہیں، پنجابی زبان کو غلط سمجھنے والوں کے لئے ماضی کے معروف کمپیئر دلدار پرویز بھٹی مرحوم کا واقعہ یا لطیفہ کہہ لیں پیش کر رہا ہوں کیونکہ اس پروگرام میں میں خود بھی موجود تھا (دلدار پرویز بھٹی انگلش کے پروفیسر بھی تھے مگر کمپیئرنگ زیادہ تر پنجابی میں کرتے تھے )

دلدار پرویز بھٹی نے کہا کہ یونیورسٹی میں ایک استاد لیکچر دے رہے تھے تو انہوں نے کا کہا کہ پنجابی ایسی زبان ہے کہ اس کی ہر بات کے دو مطلب نکلتے ہیں، ایک لڑکی نے سوال داغ دیا کہ کڈ کے ویکھاؤ (نکال کر دکھائیں)، جس پر استاد نے کہا کہ بے جا کاکی ایدے وی دو مطلب نے (بیٹھ جاؤ بچی، اس کے بھی دو مطلب ہیں)۔ میں نے بی اے پنجابی مضمون پڑھا اور فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا، یہ صرف پنجاب کو بدنام کرنے والی بات ہے کہ اس میں ہر بات کے دو مطلب نکلتے ہیں، بندے کے دماغ میں گند بھرا ہو تو ہر زبان کی ہر بات کے دو مطلب نکالے جا سکتے ہیں

اب مذکورہ گالی کی طرف آتے ہیں، شہباز گل نے اس لفظ کو معزز ثابت کرنے کی مزید دلیلیں دیں، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں جو عورت بیوہ ہو جائے اس کو رنڈی کہا جاتا ہے اور جس مرد کی بیوی فوت ہو جائے اس کو رنڈوا کہا جاتا ہے، اسی طرح دو پارٹیوں میں ڈیل کرانے والے کو دلال کہا جاتا ہے اس لئے میں نے کوئی غیر مہذب لفظ نہیں بولا

صدقے جاؤں شہباز گل کی توجہیہ کے، مولا علی علیہ سلام کا فرمان ہے کہ جاہل سے کبھی بحث نہ کرو کیونکہ جب اس کے پاس دلیل نہیں ہوگی تو وہ تمھارا دشمن بن جائے گا، اس لئے تین برس سے جاہلانہ گفتگو سن کر دفع دور کر دیتا ہوں مگر اب افسوس اس بات کا ہے کہ جاہل اعظم کی یہ دلیل پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر نشر بھی ہوئی ہے، سوچنے کی بات ہے کہ اس جاہلانہ انداز گفتگو سے کتنے معصوم ذہن متاثر ہوں گے اور مستقبل میں کتنے شہباز گل پیدا ہوں گے

میں رنڈی یا رنڈوے کی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا ورنہ بات بہت دور تک جائے گی، ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ وزیراعظم کے خاص، خاص رفقاء میں سے کس کا شجرہ کہاں ملتا ہے اور ممکن ہے کہ یہ ان کے لئے اعزاز کی بات ہو، جائیداد یا کسی بھی چیز کی ڈیل کرانے والوں کو دلال کہتا جاتا ہے مگر اس خاص لفظ کی کی ”شان“ ہی الگ ہوتی ہے، جو شہباز گل نے بولا۔ دلال کی اپنی برادری میں بہت عزت ہوتی ہے، اس کا ایک مطلب تو معاون خصوصی نے بتا ہی دیا ہے دوسرا مطلب میں بتا دیتا ہوں

عورتوں کی خریدوفروخت کرنے والے کو ”دلال“ اور پھر کسی قدر تضحیک سے اسم مصغر سے پکارا جاتا ہے، یہ باقاعدہ ایک پیشہ ہے اور اس سے وابستہ افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلانا دلال ہے، دلال کا کام کوٹھے پر بیٹھنے والی خواتین کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے، ان کے لئے گاہک ڈھونڈ کر لانا ہوتا ہے، پولیس قانونی کارروائی کرے تو انہیں رشوت دے دلا کر قانونی کارروائی سے بچانا ہوتا ہے، اس کے علاوہ رنڈی کے دھندے کو فروغ دینے کے لئے اور ان کی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کے لئے جھوٹی سچی صفات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہوتا ہے تاکہ رنڈی کا کاروبار چمکے اور دلال کا بھی روز گار چلتا رہے

کامیاب دلال اسی کو کہا جاتا ہے جو بدتمیز، ہتھ چھٹ اور منہ پھٹ ہو، اس وجہ سے لوگ اس سے ڈرتے ہیں اور عزت بچانے کے لئے دلال کو منہ نہیں لگاتے، دلالی کرنے والے کی معاشرے میں تو کیا اس کی اپنی برادری میں رتی بھر میں عزت نہیں ہوتی مگر دلا خود کو بہت معزز اور عزت والا سمجھتا ہے، مولا علی علیہ سلام کا فرمان ہے کہ بدبخت ہے وہ شخص، جس کی بدتمیزی کے خوف سے لوگ اس کی عزت کریں۔

شہباز گل جب سے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور تعینات ہوئے ہیں وہ وزیراعظم اور ان کے عہدے کو عزت دلانے میں بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں، تین سالہ حکومتی کارکردگی کو بہت عمدہ انداز میں عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں، پٹرول مہنگا ہونے پر ان کا فرمانا تھا کہ دنیا میں سب سے سستا پٹرول پاکستان میں ملتا ہے، اسی طرح مہنگائی پر بھی بہت مدلل بات کرتے ہیں کہ لوگ اپنی عزت بچانے کے لئے واہ واہ کرنے لگتے ہیں، ان کی اس شاندار کارکردگی پر حکومت کو چاہیے کہ ان کو معاون خصوصی گیری پر تمغہ حسن کارکردگی سے نوازتی جائے کیونکہ حکومت تو پتہ نہیں کہ کتنے دنوں کی مہمان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments