عمران خان اور نظریات کا قتل


کسی بھی قوم کی بنیادیں اس وقت کھوکھلی ہونا شروع ہو جاتی ہیں جب وہ اپنے نظریات پر سمجھوتہ کرنا شروع کرتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے آج تک کسی انسان نے جب بھی اپنے نظریہ سے منہ پھیرا ہے یا اپنی زندگی کے فلسفہ کو دنیاوی فائدوں کے لئے پس پشت ڈالا ہے تو اس کو بہت خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اتفاق سے آج دوبارہ وزیراعظم عمران خان کی تحریک انصاف کے ابتدائی دنوں کے جلسے کی تقریب سے خطاب سنا تو اندازہ ہوا کہ آج کے عمران خان اور اس وقت کے عمران خان کے قول اور فعل میں کتنا تضاد پایا جاتا ہے۔

سب سے پہلے انہوں نے اپنی تقریر میں آئیڈیالوجی کی بات کی تھی جو کہ یہ تھی کہ ہم پارٹی میں نئے لوگ لے کر آئیں گے میرٹ پر سب کو پارٹی رکنیت دی جائے گی اور پرانے کرپٹ لوگوں کو ہرگز شامل نہیں کریں گے آج کی وفاقی کابینہ میں آدھے سے زیادہ لوگ دوسری پارٹیوں کے بھاگے ہوئے کرپٹ اور موروثی سیاست کرنے والے سیاسی رہنما شامل ہیں۔ ماضی میں عمران خان جن لوگوں کو پاکستانی سیاست کے لئے بری مثال کے طور پر پیش کرتے تھے اور جن کو چور، مافیا اور کرپٹ کہتے تھے آج پارلیمنٹ میں انہی کے ساتھ حکومت بنائے بیٹھے ہیں۔

دوسری بات انہوں نے اپنی تقریر میں کرپشن کے خاتمے کی کی۔ آج وہ اپوزیشن کے خلاف تو کرپشن کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر اپنی پارٹی میں موجود اپنی صف اول میں موجود کرپٹ عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نا کر سکے۔ انہوں نے تقریر میں ایک اور دعویٰ کیا کہ ہم جھوٹے لارے نہیں لگائیں گے جو کہیں گے وہ کر کے دکھائیں گے اور اگر نا ہو سکا تو عوام کو صاف صاف بتا دیں گے لیکن پہلے حکمرانوں کی طرح جھوٹے وعدے نہیں کریں گے۔ مگر حکومت میں آنے کے بعد عمران خان صاحب کا ہر دعویٰ ہر وعدہ جھوٹ ہی ثابت ہوتا رہا لیکن انہوں نے کبھی اعتراف نہیں کیا۔

سب سے پہلے 90 دن میں سب کچھ ٹھیک کرنے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا اس کے بعد ایک مکمل معاشی ٹیم جو کہ اسد عمر کی قیادت میں تھی وہ بری طرح ناکام ہوئی۔ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ تا حال وفا نہیں ہو سکا۔ آئی ایم ایف سے قرض نا لینے کا سپنا بری طرح ٹوٹا مہنگائی کے خاتمے کی مہم غرباء کے خاتمے کی مہم میں تبدیل ہو گئی یہاں تک کہ تقریباً ہر دعویٰ ہی جھوٹا ثابت ہوا اور انہیں یو ٹرن کے بادشاہ یعنی اپنی کہی ہر بات سے پلٹ جانے والے کی حیثیت سے جانا جانے لگا۔

اس کے بعد جو انہوں نے تقریر میں بات کی وہ یہ تھی کہ الیکشن پر پیسہ نہیں لگائیں گے جیسے باقی پارٹیاں پیسے بہا کر اقتدار میں آتی ہیں میں ہرگز یہ کام نہیں کروں گا عام انسان میری پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آئے گا اور ایسے نئے اور کرپشن سے پاک لوگ مل کر حکومت بنائیں گے۔ مگر 2018 کے الیکشن کے بعد پارلیمنٹ میں اکثریت کے لئے کیسے آزاد ایم این ایز کو اور اتحادیوں کو ساتھ ملایا گیا اس کہانی سے ہر کوئی باخوبی واقف ہے۔ اور آخر میں انہوں نے انصاف کی بات کی کہ ملک میں انصاف لایا جائے گا لیکن اگر آج بھی دیکھا جائے تو انصاف کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ پیسے والا طاقتور انسان آج بھی قانون سے بالا تر ہے۔

عمران خان آج جس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں وہ اقتدار کے لئے اپنے نظریات اور اپنے اصولوں پر کیے گئے سمجھوتہ کی بنا پر ہے۔ جیسے خرید کر اتحادی ذاتی مفاد کی بنا پر ساتھ ملائے گئے تھے آج جب انہیں مفاد کہیں اور نظر آیا تو وہ وہاں چلے گئے۔ ووٹ بیچنے والے ضمیر فروشوں کی آج اس قدر ضرورت پڑ گئی کہ انہیں کہنا پڑا کہ میں باپ کی طرح ہوں بس ایک بار واپس آ کر میری کرسی بچا لو میں تمھیں اقتدار کے لئے دوبارہ گلے سے لگا لوں گا۔

مگر اپنی جذباتی تقاریر اور ان میں کھیلے جانے والے مذہب کارڈ کی وجہ سے وہ آج بھی اس کم شعور عوام کو اپنی باتوں میں گھما پھسلا لیتے ہیں۔ جب عوام نے عمران خان کا انتخاب کیا تھا تو یہ امید ہوئی تھی کہ شاید اس قوم میں شخصی پیروی چھوڑ کر کارکردگی کی بنیاد پر نمائندے چننے کا شعور بیدار ہو گیا ہے مگر حالیہ واقعات میں ان سب درج بالا نقاط کو جانتے اور مانتے ہوئے بھی عوام کا رویہ کہ کچھ بھی ہے عمران خان ہمارا لیڈر ہے، باقی ٹیم کرپٹ ہے لیکن خود تو ایماندار ہے اور ایسے بہت سے بے جواز دلائل دے کر یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اس قوم میں آج بھی شعور کی کمی ہے۔ ہم آج بھی اندھی شخصی پیروی کی بیڑیوں سے خود کو آزاد نہیں کروا سکے۔ جو بھی چاہے مذہب اور چند جذباتی باتوں کی بنیاد پر ہمارے ووٹ اور حمایت کو خرید سکتا ہے اور ہم ماضی کی طرح آج بھی اسی پرانے ہتھ کنڈوں کے ہاتھوں بکتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments