اب اچھوت بولے گا


ہاکڑہ ادبی فورم سندھ نے سرمایہ داروں کے ہاتھوں چوری ہونے والے گلابی گرینائٹ کے جبل کارونجھر کی ایک خوبصورت پہاڑی پر حال ہی میں سرائیکی زبان میں شائع ہونے والے رفعت عباس کے ناول ”لون دا جیون گھر“ جس کا اردو ترجمہ منور اکاش نے ”نمک کا جیون گھر“ کے عنوان سے کیا اور جسے فکشن ہاؤس لاہور نے چھاپا، کی مہورتی تقریب سندھ کے جادوئی شہر ننگرپارکر میں منعقد کی۔ گرینائٹ کی ایک بڑی گلابی سل پر کارونجھر کا سایہ پڑ رہا تھا اور اس تقریب میں موجود ناول کے قارئین اسے ناول میں بسے لونڑی شہر کا ناٹک گھر قرار دے رہے تھے اؤر اکثر مقررین نے اس تقریب کو لونڑی شہر کے گم شدہ کردار لونڑکا کی تلاش سے تعبیر کیا۔

شام ہوتے ہی کارونجھر کی یہ بڑی گلابی چٹان چراغوں سے روشن ہو گئی اور لوگ ناول کی داستانی فضا میں سانس لینے لگے۔ اس تقریب کی اہم بات ملک کے مختلف زبانوں کے نامور فکشن نگاروں کی شرکت تھی اور حسین واقعہ یہ تھا کہ مقررین نے سندھی، سرائیکی، پہاڑی، ڈھاٹکی اور اردو میں بات کی۔ اس ناول پر بہت علمی انداز میں گفتگو ہوئی اور اسے مقامیوں اور آدی واسیوں کا موقف قرار دیا گیا۔ اس ناول میں وہ مقامی ابھرتے ہیں جنہوں نے ہزاروں سالوں کے سفر میں حملہ آوروں کے ہاتھوں خود پر مسلط تاریخوں، تذکروں، داستانوں، دیو مالاؤں اور عقائد پلٹ کر رکھ دیے ہیں۔

اس سفر میں انہوں نے رامائن، مہا بھارت اور ناٹیہ شاستر جیسی کتابوں کو نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اور یوگا اور وحدت الوجود پر اپنے ناٹک میں کھیل کھیلے ہیں۔ یہ آدی واسی موت کے سامنے اپنی کلا کو لے آئے اور محمد بن قاسم کے لشکر اور انگریز راج کے مقابل اپنے شہر کو اپنی کلا سے بچایا۔ اس ناول نے اپنی تاریخی جادو نگاری کی تکنیک میں اس خطے کے تاریخی بہاؤ کو فکشن میں بدل دیا ہے۔ اس تقریب کے دوران ناول میں بسے لونڑی شہر اور کارونجھر میں ایک عجیب ملاپ پیدا ہو گیا تھا جسے وہاں پر موجود ہر شخص نے محسوس کیا۔

اس تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے اردو کے ایک معروف ناول نگار نے کہا کہ مادری زبانوں کے ناول نگار اگر مزید نکھار پیدا کر لیں تو وہ قومی دھارے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ان کی اس بات کے جواب میں ”نمک کا جیون گھر“ کے ناول نگار نے کہا کہ ہم کسی قومی دھارے کی بجائے اپنے مقامی دھارے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے بارے میں جو کچھ بولا یا لکھا گیا ہے ہم اسے نہیں مانتے۔ اب ہمارے بولنے کی باری ہے۔ اب اچھوتوں، ملیچھوں اور راخشسوں کے بولنے کی باری ہے۔

اب انتظار کرنا پڑے گا کہ راخشسوں کا فکشن کیا ہے اور وہ ناول کیسے لکھتے ہیں۔ اس مکالمے نے تقریب میں ایک دلچسپ صورت حال پیدا کر دی اور تقریب کے اختتام پر سوچ کی ایک نئی لہر پیدا ہو گئی جو شاید سندھ سمیت پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کے لیے اہم ہو۔ اس حوالے سے کالم نگار نے چند اردو ناول نگاروں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ فکشن میں تاریخی قصے اور تہذیبی باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں۔ اردو ناول اپنے معیار میں بہت آگے جا چکا ہے۔

ماضی کے المیے اور قوموں کی آپ بیتیاں بیان کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اب فکشن میں جدت آ گئی ہے اور وہ جدت انسان کی وجودی، نفسی اور جنسی کشمکش اور شہری یا صنعتی زندگی کی وارداتوں اور حادثوں کے تجزیے سے پیدا ہو سکتی ہے۔ ان کی نظر میں اردو میں لکھا جانے والا فکشن ہی جدت کے زمرے میں آتا تھا اور ان کی خواہش تھی کہ فن، فکر، کہانی اور پلاٹ میں بھی اردو ناول کے قائم شدہ اصولوں کی پاسداری کی جائے اور ایسا کرنے سے ہی مادری زبانوں کا ادب جدید ادب کے تقاضے پورے کر سکتا ہے۔

ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں آباد تمام قوموں کو اپنا ادبی معیار بلند کر کے قومی دھارے میں شامل ہونا اور ناول نگاری کے اس معیار تک پہنچنا چاہیے جو اردو ناول نگار قائم کر چکے ہیں۔ وہ موقف اور فکشن کا فرق سمجھانا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک فکشن کے تمام شعبوں میں اپنی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو لانا ماضی پسندی ہے جبکہ جدید ناول نگاری کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ مزید یہ کہ سندھی، سرائیکی، بلوچی، پشتو اور پہاڑی ناول کو ابھی بہت زیادہ مسافت طے کرنا پڑے گی۔

جبکہ دوسری طرف کراچی میں ہونے والی متعدد عالمی اردو کانفرنسوں سمیت بیشتر اردو سیمیناروں میں اس بات کا اظہار بار بار کیا جاتا رہا ہے کہ وقت کے ہاتھوں اردو بند گلی کی طرف جا رہی ہے اور مادری زبانوں میں لکھا جانے والا ادب اپنے موضوع، موقف، اسلوب، زبان کی وسعت اور نئے پن کی وجہ سے پوری دنیا میں مقبول ہو رہا ہے۔ اس صورت حال میں اردو کو مقامی تہذیبوں اور تواریخ سے جڑنا چاہیے۔ بہ صورت دیگر اردو زبان ادبی میلوں، ادبی کانفرنسوں اور جدت کے جھوٹے دعووں کے سہارے نہیں بچائی جا سکتی۔

اردو ادیبوں اور دانشوروں کے یہ دونوں رجحانات بیک وقت دیکھنے اور سننے میں آ رہے ہیں اور بیشتر اردو ادیب مادری زبانوں کے ادب پر بات کرتے ہوئے لسانی برتری کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کا ایک تضاد یہ بھی ہے کہ وہ جو بات کسی کانفرنس یا سیمینار میں کہتے ہیں اپنی روز مرہ زندگی میں اس کے برعکس بولتے ہیں۔ اسی سلسلے میں سندھی اور سرائیکی فکشن نگاروں کا موقف بھی سامنے آیا۔ رفعت عباس سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بعض لوگوں کو ہمارا طریقہ کار سمجھ نہیں آیا۔

ہم نے اپنے ماضی کو بدلا اور تاریخ کو پلٹا دیا ہے۔ ہم نے تمام تر رومانس کو ترک کر کے زندگی کے کھردرے پن کو فکشن کا حصہ بنایا ہے۔ ہم نے شمال میں شکست خوردہ دیوتا شیو کو جنوب میں ایک انسان کے طور پر دریافت کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری نئی آنکھ ہی ہمارا فکشن ہے۔ ہم نے کالونیل اور پوسٹ کالونیل بیانیے کو اپنی مقامیت کے ساتھ ملا کر دیکھا ہے۔

اسی طرح نامور سندھی کہانی کار نصیر کمبھار نے بتایا کہ ہم کسی طے شدہ قومی دھارے کو نہیں مانتے۔ ہم نے ناول کے بارے میں براہ راست عالمی ادب پڑھا ہے۔ ہمارے لیے اردو ناول نگاری اور اس کا معیار سند نہیں ہے۔ سرائیکی کہانی کار مرتضے زاہد نے کہا کہ دھرتی واس اپنے فکشن کے بارے میں خود بہتر جانتے ہیں۔ اس معاملے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ خود مادری زبانوں کے بعض ادیب ضیا دور اور اس کے بعد پی ٹی وی کے لیے لکھے گئے اپنے اردو ڈراموں میں زمین زاد کی زبان اور ثقافت کی توہین کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں مقامی لوگوں اور ان کی تہذیبوں کو ناقص اور قابل رحم دکھایا۔ وہ مادری زبانیں بولنے والوں کو اچھوت سمجھ کر خود قومی دھارے کے چیمپیئن بن بیٹھے۔ سچ بات یہ ہے کہ اچھوتوں کے پاس کچھ ہو نہ ہو لیکن ان کی یاداشت بہت مضبوط ہوتی ہے۔ وہ ایسے لوگوں کے نام اور چہرے یاد رکھتے ہیں۔

ایک زمیں زاد کے ناول ”نمک کا جیون گھر“ کی تقریب پذیرائی نے سوچ کا ایک نیا در کھول دیا ہے۔ کارونجھر کے ناٹک گھر سے ایک نئی بات چل نکلی ہے، اور یہ بات مقامیوں کے آرٹ کی سفارت کاری ہے۔ اس تقریب سے پتہ چلا کہ صدیوں کے اچھوت اور راخشس بولنے آئے ہیں۔ اب کہانی ان کے پاس ہے۔ اب تک ان کی کہانی کسی اور نے لکھی ہے۔ اب وہ اپنی کہانی خود لکھ کر لائے ہیں۔ اسی کارونجھر کے ناٹک میں امر سندھو نے کہا کہ ہم جنگ میں ہار گئے، تاریخ میں ہار گئے لیکن اپنے ناٹک میں نہیں ہاریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments