نوابوں کی سازشیں اور ریاستوں کی ساز باز: خاران، لسبیلہ اور مکران کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی کہانی

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


بلوچستان
یہ دو رشتے داروں کی لڑائی تھی۔ اس لڑائی میں پہلے علاقے کے مقتدر حقلے شامل ہوئے، پھر خطے کی سیاسی طاقتیں کود پڑیں، آخرکار عالمی طاقتیں بھی متحرک ہو گئیں۔

اس واقعے کی ابتدا ایک خواہش سے ہوتی ہے۔ بلوچستان کی تاریخ کے ماہر اور ممتاز قانون دان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کہتے ہیں کہ ’خان آف قلات‘ کے رشتے دار کیچ مکران کے حکمراں ’نواب آف گچکی‘ چاہتے تھے کہ خان کچھ مہربانی کریں اور کچھی کے علاقے کی زرعی زمینیں ان کے سپرد کر دیں۔

وہ ایسا کیوں چاہتے تھے، اس پر ایک رائے یہ ہے کہ وہ اپنی ریاست کی آمدن میں اضافے کے خواہش مند تھے۔ دوسری رائے ہے کہ وہ شاہ خرچ تھے اور اپنے بڑھتے اخراجات کے لیے مزید آمدن کی خواہش رکھتے تھے۔

اپنی اسی خواہش کے تحت انھوں نے کچھی کی زمینوں پر اپنا حق جتایا۔ مگر خان آف قلات میر احمد یار خان نے اسے مسترد کر دیا۔

خان آف قلات کا موقف تھا کہ یہ زمینیں قبائل کی ہیں، وہ انھیں کسی دوسرے کی ملکیت میں دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ یہی وہ ابتدائی واقعہ تھا جو سابق برٹش بلوچستان اور قریبی ریاستوں کے درمیان کشمش کا باعث بنا۔

ریاست مکران اور ریاست قلات کے درمیان شروع ہونے والی اس کشیدگی کے بعد نواب بائیان کی سرگرمیوں کا ایک طویل دور شروع ہوتا ہے۔

مورخ ڈاکٹر حمید بلوچ کے مطابق ان سرگرمیوں کا سراغ ایک خط سے ملتا ہے۔ مسقط میں مقیم پولیٹیکل ایجنٹ سر روپرٹ نے یہ خط بحرین میں تعینات برطانوی ریزیڈنٹ کو ارسال کیا تھا۔ اس خفیہ خط میں ایک انکشاف یہ کیا گیا تھا کہ نواب بائیان، مسقط کے امام (حکمران)، مقیمِ گوادر، اور برطانوی حکام کے درمیان ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔

بلوچستان

خط میں بتایا گیا تھا کہ نواب بائیان 27 اکتوبر 1947 کو تربت سے گوادر پہنچے۔ اس زمانے میں ان قریبی ساحلی مقامات کے درمیان آمد و رفت کا مقبول ذریعہ بحری جہاز ہوا کرتے تھے۔ مگر نواب بائیان اس سفر میں تنہا نہ تھے۔ ان کے بھائی، بیٹے اور قبیلے کے دیگر افراد کی ایک معقول تعداد بھی ان کے ساتھ تھی۔

ان مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے گوادر کے سرکاری مہمان خانے میں خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔ پہلی شب مسقط کے والی سعید بن تیمور نے ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ نواب بائیان کی یہ آؤ بھگت غیر معمولی تھی۔

نواب اس ضیافت سے ابھی لطف اندوز ہو رہے تھے کہ گوادر میں متعین برطانوی ایجنٹ نے بھی ان کے اعزاز میں چائے پارٹی منعقد کر دی۔

نواب بائیان کو یہاں جس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا، اس کی خبروں نے علاقے میں دھوم مچا دی۔ یہ خیال عام ہونے لگا کہ آنے والے دنوں میں کوئی بڑی پیش رفت ہونے والی ہے۔ نواب بائیان ان ملاقاتوں کے بعد جیونی پہنچے، اس کے بعد کراچی روانہ ہو گئے اور آئندہ کچھ دن تک وہیں مقیم رہے۔ نواب بائیان کے اس ہنگامہ خیز سفر کے بعد ایک اور سفر کا تذکرہ ملتا ہے۔

ملک دینار گچکی، نواب بائیان کے بھائی تھے۔ ایک روز وہ ان علاقوں میں سفر کرنے والے معروف بحری جہاز ایس ایس برپیٹا پر سوار ہوئے اور گوادر جا پہنچے۔ نواب بائیان کی طرح ملک دینار کی بھی یہاں اہم شخصیات سے ملاقاتیں رہیں لیکن ان کی سب سے اہم ملاقات ہدایت اللہ سے ہوئی۔ ہدایت اللہ یہاں برطانوی ایجنٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔

بلوچستان

یہ ملاقات کئی اعتبار سے اہم تھی۔ سب سے بڑی اہمیت یہ تھی کہ اس کے نتیجے میں کئی اہم انکشافات ہوئے۔ یہ انکشافات حساس اور دلچسپ نوعیت کے تھے۔

معلوم ہوا کہ ‘نواب بائیان گچکی اور خان آف قلات کے باہمی تعلقات بگڑ چکے ہیں۔ خاران اور لسبیلہ کی ریاستیں کو جو بلوچستان اسٹیٹ یونین کی تھیں، اب باغی ہو چکی ہیں اور بلوچستان اسٹیٹ یونین کے سربراہ خان آف قلات کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتیں۔ نواب خاران، جام لسبیلہ، نواب بائیان کے ہم نوا کر خان آف قلات پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیں۔ نواب بائیان گچکی مطالبہ کرتے ہیں کہ مکران سے ملنے والے مالیے پر صرف اور صرف ان کا حق تسلیم کیا جائے۔ یہ آمدنی دیگر سرداروں میں تقسیم نہ کی جائے۔ نواب بائیان نے والی مسقط سے درخواست کی ہے کہ اگر خان آف قلات مکران پر حملہ کر دیں اور اس حملے کی صورت میں مکران کے لوگوں کو بے گھر ہونا پڑے تو گوادر (جو ابھی تک پاکستان کی تحویل میں نہیں آیا تھا) میں انھیں پناہ دی جائے اور ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔’

اسی ملاقات میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ کراچی میں بانی پاکستان سے نواب بائیان ملاقات کر چکے ہیں۔ یہ ملاقات 3 دسمبر 1947 کو ہوئی۔ خان آف قلات نے نواب بائیان کو ڈھاڈر میں ایک خصوصی جرگے میں شمولیت کی دعوت دی تھی، نواب نے اسے مسترد کر دیا۔ انھوں نے ایک خفیہ خط مسقط کے سلطان کو ارسال کیا جبکہ مسقط کے والی نے گوادر کا علامتی مالیہ جو کئی صدیوں سے ادا کیا جا رہا تھا، ادا کرنے سے انکار کر دیا۔

ایک طرف گوادر میں یہ انکشافات ہو رہے تھے، ادھر اس کہانی کا ایک اور منظر کراچی میں چل رہا تھا۔

ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ نے اپنی کتاب ‘دی پروبلم آف گریٹر بلوچستان‘ میں لکھا ہے کہ یہ اگست 1947 کے دن تھے جب حکومت پاکستان کے روابط نواب بائیان کے ساتھ استوار ہوئے۔ ان روابط کی ابتدا نواب بائیان کے بیٹے شے عمر گچکی کے ساتھ ملاقات سے ہوئی۔ آنے والے دنوں میں رابطوں کے اس سلسلے میں مزید اضافہ ہوا۔

بلوچستان

خان آف قلات میر احمد یار خان کے ساتھ نواب بائیان کے اختلافات تو سامنے آ چکے تھے لیکن خاران اور لسبیلہ کے سردار ان کی مخالفت پر کیوں کمربستہ تھے؟

ڈاکٹر حمید بلوچ نے میر گل خان نصیر کی کتاب ‘تاریخ بلوچستان‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ لسبیلہ اور خاران کے خوانین کی خان آف قلات کے ساتھ پرانے اختلافات تھے۔ یہ اختلافات نواب بائیان کی طرف سے مکران کی آمدن پر حق جتانے سے بھی پہلے کی بات تھی۔

نواب بائیان خان آف قلات کی مخالفت میں اس قدر پختہ کیوں ہو گئے تھے اور اتنی استقامت کا مظاہرہ کیوں کر رہے تھے، گل خان نصیر کے مطابق اس کے پس پشت کچھ اور عوامل بھی کام کر رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

‘ان کو اکسانے میں قلات کے وزیر اعظم کا ہاتھ تھا۔ وہ بظاہر خان قلات کا وفادار تھا لیکن اندرون خانہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ گٹھ جوڑ میں تھا۔‘

انھوں نے مزید انکشاف کیا کہ ‘ان سرداروں کی پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی خفیہ درخواست بھی قلات کے وزیر اعظم نے مرتب کی تھی۔‘

یہ پس منظر تھا جس میں نواب بائیان کی حکومت پاکستان کے ساتھ قربت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر حمید بلوچ لکھتے ہیں کہ ‘نواب بائیان کو جتنی اہمیت ملی، وہ اس کے حق دار نہ تھے اور نہ ذاتی حیثیت میں وہ اتنی حیثیت رکھتے تھے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کر سکتے۔‘

بلوچستان

حمید بلوچ اس کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ ‘نصیر خان اول کے دور سے مکران خوانین قلات کا ماتحت علاقہ تھا۔ یہ علاقہ تین مقامی گچکی خاندانوں میں منقسم تھا جس میں تمپ، کیچ اور پنجگور کے علاقے شامل تھے۔ ان علاقوں کی حیثیت قلات کی نیم خود مختار ریاستوں کی تھی۔ نواب بائیان کا علاقہ کیچ ان تین علاقوں میں سے ایک تھا۔ پورا مکران ان کی حکمرانی میں نہیں تھا۔ یہی سبب تھا کہ وہ مکران کے الحاق کے بارے میں تنہا کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اس حقیقت کے باوجود انھوں نے جب الحاق کے لیے رابطہ کیا تو حکومت پاکستان نے انھیں ایک خود مختار حکمران کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ یوں گویا پاکستان کی طرف سے مکران کے دیگر ہم پلہ یعنی تمپ اور پنجگور کی ریاستوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ پاکستان کی طرف سے ایسا کیوں ہوا، اس کا ایک اور پس منظر تھا۔‘

نواب بائیان کے الحاق کے فیصلے کی مکران کے دیگر دو سرداروں کی طرف سے مخالفت ہوئی۔ اس سلسلے میں ان کے ایک ہم عصر نواب سردار بلند خان گچکی کا ایک خط بلوچستان سیکریٹریٹ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ ڈاکٹر حمید بلوچ نے اس خط کا ایک حصہ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے

‘مودبانہ عرض کیا جاتا ہے کہ عرصہ دراز سے میرے آباؤ اجداد اور میں بشمول اپنے قبیلے کے حکومت قلات کے وفادار چلے آ رہے ہیں۔ اب جب کہ حالات تبدیل ہو رہے ہیں، میں، میرے رشتے دار اور تمام قبیلہ حکومت قلات کو یہ باور کراتے ہیں کہ حکومت، قلات اور بلوچ قوم (قلات کے مستقبل کے بارے میں) جو فیصلہ کرے گی میں اسے قبول کر لوں گا۔ میں نواب بائیان گچکی کے پاکستان سے الحاق کی شدید مذمت کرتا ہوں، خاص کر اس لیے کہ نواب بائیان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ تمام مکران کا سردار ہونے کا دعویٰ کرے، ماسوائے کیچ کے۔‘

یہ خط انھوں نے 27 مارچ 1948 کو خان آف قلات کے نام لکھا۔

نواب بائیان کی مخالف مکران کی دیگر دو ریاستوں کی یہ مخالفت مستقبل کے ان واقعات میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔ یہ وہی واقعات تھے جو قلات کے الحاق اور اس کے بعد رونما ہوئے۔

خان آف قلات اور بانی پاکستان کے تعلقات تحریک آزادی کے زمانے سے خوش گوار چلے آتے تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد حالات میں تبدیلی رونما ہوئی اور گرم جوش تعلقات مخاصمت میں بدل گئے۔

بلوچستان

ان واقعات کی ابتدا تقسیم ہند کے سلسلے میں سامنے آنے والے فارمولوں اور برطانیہ سے آنے والی شخصیات کی سرگرمیوں کے دوران ہوئی اور اس سے کچھ قبل ہوئی۔

جواہر لعل نہرو کے مضامین کے مجموعے ‘سلیکٹیڈ ورکس آف جواہر لعل نہرو‘ میں خان آف قلات کے ان سے روابط کا ذکر ملتا ہے جس کے مطابق خان نے 1946 میں انھیں ایک خط لکھا۔ اس رابطے کا ایک سبب یہ تھا کہ برطانوی فارمولے کے تحت کانگریس نے قلات کی آزاد ریاست کے تصور کو مسترد کر دیا تھا۔

حمید بلوچ نے گل خان نصیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کے مقابلے میں بانی پاکستان نے یہ تصور نہ صرف تسلیم کر لیا تھا بلکہ ریاست قلات کے وہ علاقے جو برطانوی حکومت نے قلات سے پٹے پر حاصل کیے تھے اور اب برٹش بلوچستان کہلاتے تھے، ان کی قلات کو واپسی پر بھی انھیں کوئی اعتراض نہ تھا۔ تین جون کو تقسیم ہند کے اعلان تک یہ صورت حال برقرار رہی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ تقسیم ہند کے لیے ہونے والی سرگرمیوں کے دوران بھی خوش گوار تعلقات کاسلسلہ جاری رہا۔ پھر کیا ہوا کہ آنے والے دنوں میں صورت حال تبدیل ہو گئی؟ مختلف تذکروں میں اس کی دو وجوہات ملتی ہیں۔

ڈاکٹر حمید بلوچ نے اس سلسلے میں دولت مشترکہ کے وزیر تعلقات برائے رکن ممالک کے خط کا ذکر کیا ہے۔ اس خط میں کراچی میں برطانوی ہائی کمیشن سے کہا گیا تھا کہ اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان ریاست قلات کی آزادی کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اسے روکا جائے۔ ہائی کمیشن نے اس سے معزوری ظاہر کی۔ اس خط میں کہا گیا تھا:

‘خان قلات کا علاقہ جو فارس (ایران) کے ساتھ واقعہ ہے، اس حالت میں نہیں ہے کہ وہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کر سکے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اختیارات کی منتقلی سے قبل اس قسم کے خطرات سے حکومت پاکستان کو آگاہ کیا تھا۔ پاکستان میں مقیم برطانوی ہائی کمیشن کو اس صورت حال سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو (ہماری) پوزیشن سے آگاہ کرے۔‘

وہ کیا خطرات اور بین الاقوامی ذمہ داریاں تھیں جو دولت مشترکہ کے خیال میں ریاست قلات ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی؟

مصنف حمید بلوچ نے لکھا ہے کہ ‘یہ مفادات خلیجی ریاستوں کے تعلق سے تھیں اور اس تیل کے بارے میں تھیں جو اس خطے سے گزر کر مغرب کی طرف جاتا تھا۔‘

خان آف قلات نے 15 اگست 1947 کو آزادی کا اعلان کر دیا۔ اعلانِ آزادی کے بعد صورت حال بدلتی چلی گئی۔ حالات یکسر کیوں بدلے، اس کی کئی وجوہات تھیں۔

اعلانِ آزادی کے بعد قلات کے وزیر اعظم نواب زادہ محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈگلس فل کراچی گئے تاکہ حکومت پاکستان سے اسے برطانوی حکومت سے ملنے والے ان علاقوں کی واپسی پر بات چیت کر سکیں جو قلات سے اجارے پر حاصل کیے گئے تھے۔ اس موقع پر حکومت پاکستان نے اس وفد سے مطالبہ کیا کہ قلات پاکستان کے ساتھ الحاق کر لے۔ قلات میں اس کے خلاف شدید ردعمل ہوا۔ خاص طور پر قلات کی پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریریں تو پاکستان کے لیے بہت تکلیف دہ تھیں۔

اس زمانے میں قلات میں پانچ تجاویز زیر غور تھیں۔

1- ایران کے ساتھ الحاق کر لیا جائے، اس طرح مستقبل میں گریٹر بلوچستان کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

2- افغانستان سے الحاق جس کے ساتھ بلوچ حکمرانوں کے پرانے رشتے تھے۔

3- ہندوستان میں شامل ہو جائیں۔

4- پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں۔

5- سلطنت برطانیہ کے زیر سایہ رہیں۔

یہ تجاویز علانیہ تھیں البتہ برطانوی ہائی کمیشن کی اطلاع مختلف ہے۔ برطانوی ہائی کمشنر مقیم کراچی نے نئی دہلی میں اپنے ہم منصب کو لکھا کہ کہ خان آف قلات نے ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ الحاق کے لیے بات چیت کی ہے۔ یہ خط 27 مارچ 1948 کو لکھا گیا۔

اسی شام آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے والی ایک اور خبر نے سنسنی پیدا کر دی۔ اس خبر میں وی پی میمن نے انکشاف کیا کہ خان آف قلات نے حکومت ہند سے درخواست کی تھی کہ انڈین یونین کے ساتھ قلات کا الحاق منظور کیا جائے۔

قرائن سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خان آف قلات کی یہ سرگرمیاں حکومت پاکستان کے علم میں تھیں۔ یہی سبب تھا کہ خان جن دنوں مختلف امکانات پر کام کر رہے تھے، پاکستان نے ان کے مخالفین سے روابط استوار کر لیے اور انھیں پاکستان کے ساتھ الحاق پر آمادہ کر لیا۔ یہ پس منظر تھا جس میں مکران، خاران اور لسبیلہ کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر کے قلات کے لیے پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوا کوئی اور راستہ نہ چھوڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments