باتیں کچھ ادھر ادھر کی


پبلک پلیس پر رش ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے جدھر بھی جائیں عوام الناس کا ہجوم ہے۔ تفریحی مقام ہو یا کوئی شاپنگ مال، بازار ہو یا دفتر، بل جمع کروانے کی لائن ہو یا ہسپتال میں اپنی باری کا انتظار کرتے لوگ۔ ہر جگہ بے چین روحیں دکھائی دیتی ہیں۔ گاڑی پارک کرنی ہویا کسی روڈ پر گاڑی کو چلانا ہو، ہر شخص جلدی میں ہوتا ہے۔ اور سب سے آخر میں آنے والے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا کام سب سے پہلے ہو۔ اور وہ دھکم پیل کر کے اس میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اچھی خاصی لائن بنا کے کھڑے ہوں گے۔ لیکن کوئی ایک ایسا آئے گا جو لائن میں لگنے کی بجائے لائن میں گھسنے کی کوشش کرے گا۔ اور اسی ایک کی دیکھا دیکھی لائن میں لگے لوگ بھی لائن توڑنے والے کی بیعت کریں گے۔ کہ اگر کامیابی کی چابی اس کے پاس ہے تو یہ بھی بغیر چابی کے تالا کھول کے دکھا سکتے ہیں۔ بعد میں آنے والا پہلے کامیاب ہو سکتا ہے تو پھر باری کا انتظار دوسرے کیوں کریں۔ کسی ہسپتال میں پرچی بنوانی ہو یا ڈاکٹر کو چیک اپ کروانا ہو، دونوں صورتوں میں لائن میں لگنا وقت کا ضیاع اور بے مقصد ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے لائن توڑ کر کام کیا جاتا ہے۔ اور لائن میں لگیں بھی تو کیوں، یہ ملک ہمارا ہے اور ہم اس ملک کے آزاد اور باعزت شہری ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک سرکاری ادارے میں جانا ہوا تو وہاں کا گارڈ کسی پر چلا رہا تھا کہ گاڑی ادھر پارکنگ میں کھڑی کریں۔ میں نے بعد میں ان صاحب سے پوچھا کہ آپ گاڑی پارکنگ تک کیوں نہیں لے کر گئے۔ تو انھوں نے کہا، آپ ہی ایمانداری سے بتائیے، اگر پانچ منٹ کا کام ہے تو دس منٹ پارکنگ تک جانے میں ضرور ضائع کرنے ہیں۔ چوکیدار بھی عجیب ڈھیٹ قسم کا انسان تھا، بتایا بھی کہ پانچ منٹ کا کام ہے لیکن آدھے گھنٹے سے ’فضول‘ بحث کیے جا رہا تھا۔ بعد میں بھی تو اسے بات ماننا پڑی، پہلے ہی مان جاتا۔ یعنی سارا قصور چوکیدار کا نکلا جس نے بحث میں ٹائم ضائع کروایا، اور راستہ روک کے رش لگوا دیا۔ سچی بات ہے ہم وہاں بھی نہیں رکتے جہاں قانون موجود ہو۔ بلکہ قانون کی موجودگی ہی میں سارے قانون توڑ ڈالتے ہیں۔ اشارہ توڑنا تو سمجھیں اپنا فرض ہے۔

میرے ایک جاننے والے خود کو اشارہ توڑنے کا ماہر کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اشارے پہ کھڑے ہونا نری حماقت ہے۔ فرماتے ہیں مجھے لال رنگ سے سخت چڑ ہے۔ اس لیے میں اشارے پر رکنے کی بجائے بنا ادھر ادھر دیکھے بائیک بھگا کر لے جاتا ہوں، اور الحمد للہ کبھی پکڑا نہیں گیا۔ کسی گنجان سڑک پر لڑکے موٹرسائیکل پر کرتب نہ دکھائیں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ منڈا جوان ہو گیا ہے، حادثات ہوتے ہیں تو ہوں اہم اور مصروف شاہراہوں پر ون ویلنگ نہیں رکنی چاہیے۔ ایک اور بات جو اس قوم کی سرشت میں شامل ہے وہ ہے پبلک واش روم کا کھلا ڈلا استعمال۔ مرد حضرات تو پورے ملک کو ذاتی واش روم ہی سمجھتے ہیں۔ جہاں حاجت ہوئی سرعام بیٹھ گئے۔ وہ واش روم ڈھونڈنے کا تکلف نہیں کرتے۔ اور جو بیچارے واش روم استعمال کر لیں وہ پھر اسے کسی دوسرے کے لیے استعمال کا رہنے نہیں دیتے۔

مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم پبلک واش روم استعمال کرنے کی تمیز بھی نہیں سیکھ سکے، کہیں بھی ہوں اپنا آپ دکھا آتے ہیں۔ اپنے ہاں یہ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ کسی بھی پبلک واش روم میں چلے جائیں، سب غلاظت سے اٹے ہوتے ہیں۔ خاص کر سرکاری ہسپتالوں، ریلوے اسٹیشن، سرکاری عمارتوں سرکاری سکولوں، کالجوں، تفریحی مقامات، لاری اڈوں سے لے کر ہوائی اڈوں تک میں ان کی حالت قابل رحم ہے۔ اکثر واش رومز میں پانی کی ٹونٹی تک غائب ہوتی ہے۔

پچھلے دنوں ایک ہسپتال کے واش روم جانے کا اتفاق ہوا۔ اور دھچکا لگا کہ ہم کس صدی میں جی رہے ہیں۔ ہسپتال کا واش روم کچرے کا ڈھیر لگ رہا تھا جہاں استعمال شدہ پیڈز اور پیمپرز کھلے پڑے تھے۔ کموڈ غلاظت سے بھرے ہوئے تھے، اور تینوں واش رومز کا ایک جیسا حال تھا۔ ہم واش روم تو استعمال کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمیں یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ واش روم استعمال کیسے کرتے ہیں۔ پبلک واش روم استعمال کرنے والوں کو لگتا ہے کہ وہ دنیا کے آخری انسان ہیں جو واش روم استعمال کر رہے ہیں اور ان کے استعمال کے بعد قیامت آ جائے گی۔

لہذا اپنی غلاظت کو فلش کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ لوگ پبلک مقامات پر واش روم صاف چاہتے ہیں لیکن صاف رکھتے نہیں۔ اس قوم کی بقیہ عادتوں کے ساتھ یہ عادت بھی سدھاری نہیں جا سکتی۔ اگر کوئی واش روم استعمال کرنے گیا ہے تو وہاں کوئی سکیورٹی گارڈ تو اس کے ساتھ جائے گا نہیں اور نہ ہی واش روم میں کیمرے کو رسائی دی جا سکتی ہے۔ ان کو پتہ ہے انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ لہذا اب کر لو جو ہے کرنا، ہم نہیں سدھریں گے۔

لیکن یہ سب باتیں سر فخر سے بلند کر کے بتانے کی نہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم پورے ملک میں چاہے کہیں بھی چلے جائیں، بد تہذیبی دکھاتے ہیں۔ لائن توڑتے ہیں، ٹریفک رول توڑتے ہیں، قانون توڑتے ہیں۔ جگہ جگہ گند پھیلاتے ہیں اور پھر اس پہ اتراتے ہیں۔ اور الزام حکومت کو دیتے ہیں کہ حکومت عوام کے لیے کچھ نہیں کرتی۔ ہم خرابی کی ذمہ داری ہمیشہ دوسرے پہ ڈال کے خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ جبکہ اصل خرابی کے ذمہ دار ہم ہی ہوتے ہیں۔

بہت معذرت کے ساتھ، یقین کریں سارے خراب روئیے ہم اپنے گھر سے لے کر چلتے ہیں لیکن اس کا الزام دوسرے پہ ڈالتے ہیں۔ کہ ہماری اکثریت اپنے ذاتی عمل کو دوسروں پہ ڈالنے کا ہنر خوب جانتی ہے۔ فلاں نے یہ کام نہیں کیا تو میں کیوں کروں۔ یا پھر یہ سوچ کہ یہ کام اس کے کرنے کا نہیں۔ ہر شخص دوسرے کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن اصل راز کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی اپنے وطن کو اپنا ہی وطن سمجھتے ہیں، بلکہ کچھ زیادہ ہی اپنا سمجھتے ہیں، اسی لیے جو چاہے کرتے پھرتے ہیں۔

اب دیار غیر میں تھوڑی بیٹھے ہیں جہاں تھوکتے ہوئے بھی ڈر لگے۔ دوسرے ملکوں میں ہماری دھونس نہیں چلتی، چلیں وہ کون سا ہمارا اپنا دیس ہے، لیکن جہاں من مانی چلتی ہے وہاں کیوں نہ چلائیں۔ پتہ نہیں ترقی کے شوقین ملکوں کا بھی کیا مسئلہ ہے من مرضی کرنے ہی نہیں دیتے۔ وہاں تو معصوم بچہ بھی مہذب بنا پھرتا ہے، سڑک پر ریپر نہیں پھینکتا۔ ہر وقت تہذیب سکھانے کے چکر میں ڈال کر، ان ظالموں نے بچوں کی معصومیت ہی چھین لی ہے۔

وہ بیچارے باہر جا کر کچھ کھائیں تو ریپر پھینکنے کے لیے ڈسٹ بین تلاش کرتے رہتے ہیں، یقین کریں باہر کے ملکوں میں جا کر لگ پتہ جاتا ہے کہ اپنا وطن اپنا ہی ہے۔ یار کوئی بات ہے ہر جگہ کیمرے لگا رکھے ہیں ذرا کچھ خطا ہو جائے تو جرمانہ بھرو، ٹیکس دو۔ اوپر سے کمبخت رشوت بھی نہیں لیتے کہ کچھ دے دلا کر جان چھوٹے۔ اپنے وطن جیسی خوبیاں کہیں نہیں۔ اسی لیے تو جو وطن سے باہر رہ رہے ہوں، وہ تو مجبور ہوتے ہیں قانون کی پابندی کرنے پہ، لیکن اپنے وطن میں ہوں تو پھر ہم سے نہیں ہوتے یہ غیروں والے برتاؤ۔

ہم تو سیدھے سادھے لوگ ہیں۔ جہاں جو دل چاہے کر لیتے ہیں۔ شکر الحمد للہ یہاں کوئی روک ٹوک نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں گے اپنی تہذیب سے مجبور لیکن ہم پاکستانی بھی اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ اور پاکستانی قوم کی عادتیں تو کوئی بھی نہیں بدل سکتا، یہاں تک کہ ٹیکس نام کا ڈنڈا بھی۔ کہ ٹیکس معاف کروانے میں بھی اس قوم کا کوئی ثانی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments