توشہ خانہ کیس: تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ


توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل اورنگزیب نے 17 مارچ کو ایک مرتبہ پھر تاریخ دیدی، ان کا فرمانا تھا کیونکہ آپ وزیراعظم کو غیرملکی سربراہان سے ملنے والے تحائف کی تفصیل مانگ رہے ہیں لہٰذا حکومت کا موقف سنے بغیر کوئی آرڈر جاری نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ میرے وکیل رانا عابد نذیر خاں ایڈووکیٹ نے انتہائی پروفیشنل انداز میں جج صاحب کو یاد دلایا کہ جناب اعلیٰ آپ نے خود ہی 8 دسمبر 2021 کو مقدمے کی (آخری) سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ عدالت نے حکومت کی درخواست کے باوجود پاکستان انفارمیشن کمیشن پر کوئی قدغن نہیں لگائی، وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے غیرملکی تحائف کی تفصیل کے حوالے سے انفارمیشن کمیشن اپنے (سابقہ) فیصلے پر عملدرآمد کے لئے مکمل طور پر با اختیار ہے اور کمیشن کوئی بھی ایکشن لے سکتا ہے۔

رانا عابد نذیر خاں ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں 5 نومبر 2021 کو پہلی درخواست دی جس میں گزارش کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کی درخواست کے باوجود نہ تو کوئی حکم امتناعی جاری کیا اور نہ ہی کمیشن کا 27 جنوری 2021 کا فیصلہ معطل کیا ہے، محض رٹ پٹیشن ہائیکورٹ میں زیرسماعت ہونے کی بنیاد پر ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں روکی جا سکتی، براہ مہربانی کمیشن 10 جون 2021 کو جاری ہونے والے (اپنے ) شوکاز نوٹس پر کارروائی جاری رکھے اور توہین عدالت کے مرتکب افسر کے خلاف ایکشن لیا جائے، اس کے برعکس کمیشن نے ہماری درخواست کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔

کمیشن کو دوسری درخواست 6 دسمبر 2021 کو دی جبکہ تیسری درخواست 18 فروری 2022 کو دی گئی۔ اس دوران پاکستان انفارمیشن کمیشن نے 3 فروری 2022 کو ہماری درخواستوں پر سماعت بھی کی تاہم فیصلہ 21 فروری 2022 کو جاری کیا گیا۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن کا کہنا ہے کیونکہ معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے لہٰذا کمیشن اپنے (سابقہ) فیصلے پر عملدرآمد کے لئے مزید کوئی ایکشن نہیں لے سکتا۔

رانا عابد نذیر خاں ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کا 21 فروری 2022 کا آرڈر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس کی نفی کرتا ہے، براہ مہربانی حکم جاری کیا جائے کہ کمیشن اپنے (سابقہ) فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ایکشن لے۔ تاہم معزز جج صاحب نے رانا عابد نذیر خاں ایڈووکیٹ کی استدعا کو مسکرا کے ٹال دیا، ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوتا، عدالت دونوں فریقوں کا موقف سننے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد اپنا فیصلہ سنائے گی۔ انہوں نے سماعت اگلے ماہ (اپریل) کے پہلے ہفتے کے لئے ملتوی کردی اور مسؤل علیہان (پاکستان انفارمیشن کمیشن اور کابینہ ڈویژن) کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیدیا۔

یہاں اس بات کو یقین کے ساتھ بیان نہیں کیا جاسکتا کہ معزز جج کی مسکراہٹ ذو معنی تھی یا پھر۔ ۔ ۔ تاہم بظاہر ان کی بات درست بھی ہے کہ عدالت کے لئے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے فریقین کا موقف جاننا ضروری ہوتا ہے۔

مگر اہم سوال یہ ہے کہ سرکار کا موقف سننے کے لئے عدالت عالیہ کو کتنا عرصہ درکار ہو گا، جبکہ سرکار کا موقف ہے کیا؟ درحقیقت سرکار کا موقف بلکہ فیصلہ یہ ہے کہ جب تک عمران خان وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہیں ان کو ملنے والے غیرملکی تحائف کی تفصیل توشہ خانے کی مقفل الماریوں کے باہر نہیں جا سکتی، چاہے اس کے لئے قانون اور انصاف کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہی کیوں نہ کی جائے!

برعکس اس کے پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ہماری درخواستوں پر جاری کردہ آرڈر میں رائے دی ہے کہ کمیشن کے 27 جنوری 2021 کے فیصلے (جس میں کابینہ ڈویژن کو دس روز کے اندر وزیراعظم عمران خان کے غیر ملکی تحائف کی تفصیل فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تھا) ، پر عملدرآمد میں ناپسندیدہ تاخیر تو ہوئی تاہم یہ تاخیر جان بوجھ کر نہیں کی گئی جو کہ معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کی شق نمبر 20 کی ذیلی شق نمبر ایک کی ذیلی شقوق ’ای‘ اور (ایف) کے زمرے میں آتی ہو۔

خیال رہے کہ معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کی شق نمبر 20 کمیشن کے اختیارات سے متعلقہ ہے اور اس کی ذیلی شق نمبر ایک کہتی ہے ”انفارمیشن کمیشن کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے، براہ راست یا اتفاقی، جو (اس ایکٹ میں بیان کردہ) اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے ضروری ہیں اور پراپرٹی حاصل کرنے کا اختیار، پراپرٹی رکھنے اور اس کے تصرف کا اختیار بشمول یہ اختیار کہ (ای) کسی بھی سرکاری محکمے /ادارے کو (درخواست گزار کو) مطلوبہ معلومات کی فراہمی کا حکم جاری کرے یا اس ایکٹ پر عملدرآمد میں ناکامی کی صورت میں ازالے کے لئے معقول اقدامات کرنے کا حکم جاری کرے، (ایف) کسی بھی حکومتی عہدیدار کے اوپر کم سے کم ایک دن اور زیادہ سے زیادہ سو دن کی تنخواہ کے مساوی جرمانہ عائد کرے جس نے درخواست گزار کو معلومات کی فراہمی سے محروم رکھنے یا معلومات کی فراہمی میں تاخیر سمیت جان بوجھ کر کسی بھی ایسی سرگرمی میں رکاوٹ ڈالی ہو جو اس ایکٹ کے تحت ضروری ہے“ ۔

اس سے پہلے کہ میں ان تاخیری حربوں کی تفصیل بتاؤں جو ڈپٹی سیکرٹری/ پبلک انفارمیشن افسر کابینہ ڈویژن محمد احد نے کمیشن کے واضح فیصلے کے باوجود وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے غیرملکی تحائف کی انفارمیشن کو روکنے کے لئے (جان بوجھ کر) استعمال کیے۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اپنے 21 فروری 2022 کے آرڈر میں قرار دیا کہ ”تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ قبل ازیں پی آئی او (کابینہ ڈویژن) نے تحائف کی انفارمیشن جو وہ (معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت) موزوں سمجھتے تھے فراہم کی تاہم اپیل کنندہ (رانا ابرار خالد) نے درست نشاندہی کی کہ دی گئی انفارمیشن دراصل مانگی گئی انفارمیشن سے مطابقت نہیں رکھتی“ ۔ کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد میں تاخیر کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پی آئی او (کابینہ ڈویژن) نے کمیشن کے فیصلے پر وزارت قانون و انصاف سے رائے مانگی، حالانکہ معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 میں انفارمیشن کی فراہمی یا بصورت دیگر وزارت قانون و انصاف کا کوئی کردار موجود نہیں۔ اس طرح، کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے، یا چیلنج کرنے کے سلسلے میں کوئی بھی غیرمعمولی تاخیر مکمل طور پر غیر ضروری ہے ”۔

خیال رہے کہ کابینہ ڈویژن (حکومت) نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد میں ناکامی پر مذکورہ بالا عذر گناہ بذات خود کبھی بھی اور کسی بھی فورم پر پیش نہیں کیا، بلکہ یہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے معزز انفارمیشن کمشنر کا اخذ کردہ ہے۔

حالانکہ وزیراعظم عمران خان غیرملکی تحائف کیس کے اصل حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ 23 نومبر 2020 کو میں نے (معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کے تحت) پبلک انفارمیشن افسر کابینہ ڈویژن کو آرٹی آئی ریکویسٹ بھیجی جس میں 18 اگست 2018 سے لے کر 31 اکتوبر 2020 تک وزیراعظم عمران خان کو غیرملکی سربراہان مملکت و حکومت و دیگر غیرملکی معززین سے ملنے والے تحائف کے بارے میں مخصوص سوالات کے مخصوص جوابات مانگے۔ خیال رہے کہ معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کی شق نمبر 14 کے تحت تمام سرکاری محکمے و ادارے دس روز کے اندر مانگی گئی انفارمیشن فراہم کرنے کے پابند ہیں جبکہ اگر مانگی گئی انفارمیشن کافی ضخیم ریکارڈ سے اکٹھی کرنا مقصود ہو یا پھر ایک سے زائد دفاتر سے تعلق رکھتی ہو تو متعلقہ محکمہ مزید دس روز لے سکتا ہے تاہم اس صورت میں درخواست گزار کو مطلع کرنا ہو گا۔ اس کے برعکس پبلک انفارمیشن افسر کابینہ ڈویژن نے میری آر ٹی آئی ریکویسٹ کا جواب تک دینا مناسب نہ سمجھا، لہذا دس روز بعد ( 17 دسمبر 2020 کو) میں نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل دائر کی۔

بلاشبہ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے مستعدی کا مظاہرہ کیا اور پبلک انفارمیشن افسر کابینہ ڈویژن کی طرف سے (مانگی گئی انفارمیشن) معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کی شق نمبر 7 کی ذیلی شق نمبر ایف اور جی جبکہ شق نمبر 16 کی ذیلی شق نمبر 2 کے تحت خفیہ قرار دیے جانے کا موقف اپنانے کے باوجود 27 جنوری 2021 کو میری اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم جاری کیا کہ دس روز کے اندر اپیل کنندہ کو مطلوبہ انفارمیشن فراہم کردی جائے، حالانکہ قانون 60 دن کا وقت دیتا ہے جبکہ انفارمیشن کمیشن نے میری اپیل پر 40 روز میں فیصلہ سنایا جو قابل تعریف ہے۔

اب مرحلہ درپیش تھا کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کا او وہ بھی فیصلے کی عبارت اور روح کے مطابق، مگر ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی بجائے 15 فروری 2021 کو پاکستان انفارمیشن کمیشن کو خط بھجوا کر فیصلے پر عملدرآمد سے کھلم کھلا انکار کر دیا، جو معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2017 کی شق نمبر 3 کی ذیلی شق نمبر ایک کی سنگین خلاف ورزی تھی۔

نتیجتاً میں نے 24 فروری 2021 کو ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کمیشن میں دائر کردی، کمیشن نے قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب افسر کے خلاف کارروائی کی بجائے یکم مارچ 2021 کو ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈینیشن) کابینہ ڈویژن کو خط بھیج کر بتایا کہ ان کا موقف مکمل طور پر غلط ہے کیونکہ کمیشن اپنا فیصلہ سنا چکا ہے اور اب صرف ہائی کورٹ ہی کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ مگر کابینہ ڈویژن نے پھر بھی انفارمیشن کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کو ضروری نہ گردانا۔

کمیشن نے 19 مارچ 2021 کو ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن کو ایک اور خط بھجوایا جس میں 27 جنوری کے فیصلے پر عملدرآمد کی رپورٹ پانچ روز کے اندر پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ جواباً پبلک انفارمیشن افسر کابینہ ڈویژن نے 26 مارچ 2021 کو پاکستان انفارمیشن کو لکھا کہ کابینہ ڈویژن نے وزارت قانون و انصاف سے قانونی رائے کے لئے رجوع کر رکھا ہے لہذا کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے مزید مہلت درکار ہے۔

بالآخر پاکستان انفارمیشن کمیشن نے 10 جون 2021 کو ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈینیشن) کابینہ ڈویژن کو (توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لئے ) اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 8 جولائی 2021 کو اصالتاً طلب کر لیا، تاہم 8 جولائی کو ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈینیشن) کابینہ ڈویژن محمد احد نے کمیشن کے روبرو پیش ہو کر ایک اور ڈرامہ کیا۔ انہوں نے ایک بند لفافہ پیش کیا اور کہا کہ اس میں اپیل کنندہ کی طرف سے مانگی گئی تمام انفارمیشن موجود ہے، ساتھ ہی وہ چلتے بنے۔ میں اس روز (کسی ذاتی مجبوری کی بنا پر) قدرے تاخیر سے کمیشن پہنچا تو بتایا گیا کہ آپ کی مطلوبہ انفارمیشن مل چکی ہے۔ تاہم جب کاپی ملی تو معلوم ہوا کہ میری طرف سے پوچھے گئے ایک بھی سوال کا جواب موجود نہیں بلکہ اس میں تحائف کی نیلامی کے غیرمتعلقہ اعداد و شمار تھے۔

لہٰذا وہیں پر ہی میں نے کمیشن کو تحریری درخواست دیدی کہ ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈینیشن) کابینہ ڈویژن نے دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے (جان بوجھ کر) جھوٹی انفارمیشن فراہم کی ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ خیال رہے کہ پاکستان پینل کوڈ کے مطابق کسی بھی عدالت یا کمیشن کے سامنے جھوٹی انفارمیشن فراہم کرنا سنگین جرم ہے۔ تاہم کمیشن کی طرف سے اس ضمن میں تاحال دھوکہ دہی کے مرتکب افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 16 جولائی 2021 کو ڈپٹی سیکرٹری (کوآرڈینیشن) کابینہ ڈویژن نے کمیشن کو خط بھجوا کر مطلع کیا کہ وزارت قانون و انصاف نے (کابینہ ڈویژن کے ) موقف سے اتفاق کیا ہے، حکومت جلد ہی اپیل دائر کرنے جا رہی ہے۔

3 اگست 2021 کو میں نے کمیشن کو عدم اطمینان کا خط بھی لکھا کہ حکومت ( کابینہ ڈویژن) نے ہائیکورٹ میں اپیل دائر نہیں کی بلکہ اپیل دائر کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے، لہٰذا جب تک عدالت عالیہ 27 جنوری 2021 کا فیصلہ معطل نہ کرے کمیشن نہ صرف اپنے فیصلے پر عملدرآمد بلکہ دھوکہ دہی کے مرتکب ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے خلاف کارروائی کے لئے مکمل طور پر با اختیار ہے۔ مگر پاکستان انفارمیشن کمیشن نے چپ سادھ لی، جبکہ 15 ستمبر 2021 کو وفاق پاکستان (کابینہ ڈویژن) کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کے 27 جنوری 2021 کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت رٹ پٹیشن دائر کر دی گئی۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے خلاف پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اس وقت توہین عدالت کی کیوں روکی جب کابینہ ڈویژن نے فقط اپیل کا عندیہ ظاہر کیا تھا، جبکہ اس سے بھی پہلے (جب 15 فروری 2021 کو ڈپٹی سیکرٹری کابینہ ڈویژن نے کمیشن کے فیصلے پر کھلم کھلا انکار کر دیا تھا) تو کمیشن نے فوری طور پر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہ کی؟ کیا پبلک انفارمیشن افسر کابینہ ڈویژن کی طرف سے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد سے واضح انکار کے بعد کوئی شبہ رہتا ہے کہ وہ فیصلے پر عملدرآمد کے معاملے میں جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال نہیں کر رہے تھے۔ اس کے برعکس پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اپنے 21 فروری 2022 کے آرڈر میں لکھنا کہ کمیشن کے 27 جنوری 2021 کے فیصلے پر عملدرآمد میں (کابینہ ڈویژن کی طرف سے ) ”ناپسندیدہ تاخیر تو ہوئی تاہم یہ تاخیر جان بوجھ کر نہیں کی گئی“ کتنی معصومانہ بات ہے۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

دراصل ہمیں معلوم تھا کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن ہماری درخواستوں پر کیا فیصلہ جاری کرے گا بلکہ ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے بعد ہائیکورٹ نے کیا کرنا ہے، تاہم اس کے باوجود ہم نے پاکستان انفارمیشن کا آرڈر اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر کے انصاف کو ایک موقع فراہم کیا ہے۔

ہمیں یقین کی حد تک شبہ ہے کہ توشہ خانہ کیس کا فیصلہ بھی ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک عمران خان وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہیں ان کو ملنے والے غیرملکی تحائف کی تفصیل نہیں ملنے والی، پارلیمنٹ چاہے جتنے قانون منظور کر لے اور کمیشن بنا لے، ملے گی تو صرف تاریخ اور نہیں ملے گا تو انصاف نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments