ارے پگلے کفن میں جیب نہیں ہوتی


سادگی اور شکر گزاری ایک بہت ہی منفرد وصف ہے مگر آج کل کے جدید دور میں اس کو بہت ہی حقیر نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے، اگر کوئی سادہ کپڑے پہنے اور سادہ گو انسان ہو تو لوگ اس کو بے وقوف سمجھ لیتے ہیں اس کے برعکس اگر کوئی ماڈرن کپڑوں میں ہو اس کو بہت ہی عقلمند اور دانا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے اپنی ساری عمر سادگی سے ہی گزارنا پسند فرمائی۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک معروف واقعہ ہے کہ آپ کی ملاقات وقت کے حاکم سے ہوئی اور وہ آپ کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا، اور اس نے آپ کو دعوت دی کہ اس نے ایک شاندار دعوت کا انتظام کیا ہے اور آپ بھی اس دعوت میں شریک ہوں۔

شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ دعوت کو قبول کرتے ہوئے اس دن وہاں تشریف لے گئے، آپ جب وہاں تشریف لے گئے تو آپ سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے، وہاں کے چوکیداروں نے آپ کو اندر آنے کی اجازت نہ دی باوجود شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کے بار بار بتانے کہ مجھے اس دعوت میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے اور حاکم وقت نے ان کو مدعو کیا ہے، لیکن آپ کی بات کسی نے نہ سنی اور کہا کہ یہ امرا کی دعوت ہے نہ کہ فقیروں کی۔ خیر شیخ صاحب واپس شریف لے گئے اور گھر جا کر ایک خوبصورت لبادہ پہنا اور واپس دعوت میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔

اس بار کسی نے آپ کو اندر آنے سے نہیں روکا جب مہمانوں کے لئے کھانا پیش کیا گیا تو شیخ صاحب نے وہاں بیٹھ کر اپنے خوبصورت لبادے کو ہاتھ میں پکڑ کر کھانے کی طرف اشارہ کیا کہ کھانا کھاؤ، لوگوں نے بہت حیرانی سے شیخ صاحب کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ پوشاک کھانا کیسے کھا سکتی ہے کھانا تو آپ کے کھانے کے لیے پیش گیا ہے، تب آپ نے فرمایا کہ مجھے اس دعوت میں قبول نہیں کیا گیا تھا بلکہ میرے خوبصورت کپڑوں کو اس دعوت میں قبول کیا گیا ہے اب یہ کپڑے ہی کھانا کھائیں۔

حاکم وقت کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ بہت ہی ندامت کا اظہار کرنے لگا۔ انسان کی قدر اس کی شخصیت سے ہوتی ہے نہ کہ اس کی ظاہری حالت سے، لیکن بدقسمتی سے اسی معیار پر زیادہ تر لوگوں کو پرکھا جاتا ہے اور ان کی شخصیت کی خوبصورتی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ انسان کے اعمال اور نیک کام ہی آخر کار کام آئیں گے، انسان جتنا بھی مال و دولت اکٹھا کر لے آخر ایک دن اس دنیا کو چھوڑ کر جانا پڑے گا اور پھر یہ مال و دولت کام نہیں آئیں گے۔

سکندر اعظم جس نے تقریباً تمام دنیا کو فتح کر لیا تھا وہ بھی اپنی وفات کے وقت نصیحت کر رہا تھا کہ جب میں مر جاؤں اور جب میری لاش کو کفن میں ڈالا جائے تو تم میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر نکال دینا اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں کھول دینا تاکہ تمام دنیا دیکھ سکے کہ وہ فاتح اعظم جس نے تمام دنیا کو فتح کر لیا وہ بھی اس دنیا سے کوچ کے وقت کچھ نہیں لے جا رہا اور کتنا بے بس ہے۔

کما لے ہیرے جواہر اور موتی، ارے پگلے کفن میں جیب نہیں ہوتی

اگر اسی نصیحت پر انسان عمل کرنا شروع کردے تو بہت سی برائیاں معاشرے سے ختم ہوجائیں گی اور ایک جنت نظیر معاشرہ قائم ہو جائے گا۔ جو صاحب وجاہت اور اقتدار لوگ ہیں، چاہے وہ سیاستدان ہوں چاہے حکمران ہوں یا کسی محکمہ کے سربراہ ہوں چاہے کوئی بھی ہو جس کے سپرد کام سونپا جائے اگر وہ دیانت داری اور ایمانداری سے کریں تو اس کا معاشرے پر بہت اچھا اور مثبت اثر ہو گا۔ لیکن انسان کی ہوس اس کو مارتی ہے، وہ اس ہوس کے پیچھے تمام لوگوں کے حقوق چھیننے پر راضی ہو جاتا ہے، وہ مال جو قوم اور ملک کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال ہونا ہوتا ہے وہ اپنے استعمال میں لے آتا ہے اور معاشرے کی اصلاح اور بہبودی کے متعلق بالکل بھی نہیں سوچتا۔

وہ قومی خزانہ جو قوم اور ملک کی فلاح و بہبودی کے لئے ہوتا ہے وہ اپنی ذات پر خرچ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس چیز کو بالکل بھلا دیتا ہے کہ وہ ایک امین ہے اور اس امانت کا اس کو جواب دینا پڑے گا، لیکن وہ اس امانت میں خیانت کرنے سے ہر گز نہیں کتراتا! کیا اس کو پتہ نہیں ہے کہ اس نے ایک دن خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور یہی خیانت اس کو جہنم میں دھکیل دے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی تھے جو بیت المال کے رکھوالے تھے۔ ان کی وفات کے وقت لوگ ان کی بہت تعریف کر رہے تھے کہ آپ بہت نیک انسان تھے وہ سیدھا جنت میں ہی جائیں گے لیکن رسول کریم صلی نے فرمایا آیا کہ میں اس کو جہنم کی آگ میں دیکھتا ہوں کیونکہ کہ اس نے بیت المال سے ایک چادر اپنے پاس رکھ لی تھی۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے یہ سنا تو وہ اپنے گھروں کو بھاگے اگر کسی کے پاس کچھ غلطی سے بھی جس کو وہ چھوٹی سی جیز سمجھ کر اپنے گھر لے گئے تھے وہ واپس مسجد میں لے آئے اور بیت المال میں جمع کر وادی۔

اب وہ صحابہ کرام جن کا تقوی کا معیار بہت ہی اعلی تھا ان کی بھی گرفت ایک چھوٹی سی چیز ادھر سے ادھر کرنے میں ہے تو یہ حکمران کیوں نہیں سوچتے کہ قومی خزانہ قوم کی ملکیت ہے اور اس میں ان کو ہیرا پھیری کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کاش ہمارے حکمران اس بات کو سمجھ جائیں۔ یہ بات صرف حکمرانوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر حکومتی ادارے کے جو بھی سربراہ ہوتے ہیں وہ اپنے ادارے کی ایک ایک پائی بھی جو قوم کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ ہونے والی رقم کے ذمہ دار ہوں گے۔

خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لوگوں پر جب موت کا وقت آتا ہے تو وہ کہتے ہیں اے خدا ہمیں تو ایک موقع اور دے، اگر تو ہمیں ایک موقع دے گا تو ہم واپس جائیں گے اور اس دنیا میں صدقہ کریں گے خیرات کریں گے اور نیک اور صالح لوگوں میں شامل ہو جائیں گے، لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ گھڑی آ جاتی ہے تو پھر کوئی چیز کام نہیں آتی۔ یہاں ایک قصہ بیان کر دیتا ہوں کہ ایک آفس میں ایک افسر کی جیب میں دو قلم ہوا کرتے تھے۔

ایک قلم ان کا ذاتی تھا اور دوسرا قلم آفس کی ملکیت تھا۔ ایک دفعہ ایک ملازم کچھ کاغذات لے کر آیا اور ان کے دستخط چاہے، افسر صاحب نے کاغذ پر دستخط کرنے کے لئے قلم اپنی جیب سے نکالا اور ابھی دستخط کرنے ہی لگے تھے تو ان کو کچھ خیال آیا تو انھوں نے وہ قلم واپس اپنی جیب میں رکھ دیا اور دوسرا قلم نکال کر اسے دستخط کیے۔ ملازم یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ ان سے کہا کہ دونوں ایک جیسے ہی ہیں آپ اس سے ہی دستخط کر دیتے، مگر انہوں نے جواب دیا کہ یہ کاغذات میرے ذاتی ہیں اس کے لئے میں اپنا ذاتی قلم ہی استعمال کروں گا۔ کاش ملک کے ہر شعبے کا عہدے دار اور ہمارے حکمران اس طرح کہ امین ہوجائیں تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہمارا ملک ترقی نہ کرے۔ خدا تعالی حکمرانوں کو سچا امین بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

مسعود اشرف
Latest posts by مسعود اشرف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments