پی ٹی وی: جانے کہاں گئے وہ دن؟


مقام : بارہ کھمبا روڈ نئی دہلی۔ وائس آف امریکا کا دفتر

وقت: 1987ء کے موسم بہار کی ایک شام

کردار: دہلی کے صحافی، ادیب، شاعر اور میڈیا کے کچھ لوگ

کمرے میں مردوں عورتوں کی ملی جلی آوازوں کا مگھم سا شور ہے جس میں کبھی کبھار ہلکا سا قہقہہ بھی ابھر آتا ہے۔ تقریب کے میزبان وائس آف امریکا کے مقامی بیورو چیف روی کھنہ ہیں جو ہر طرف گھوم پھر کر اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ سب مہمانوں تک ان کے پسندیدہ مشروبات پہنچ جائیں۔

میں اس ہجوم میں کسی کو نہیں جانتا سوائے میزبان کے۔ روی کھنہ واشنگٹن میں چار برس تک میرے رفیق کار رہے تھے جس کے بعد وہ دہلی منتقل ہو گئے اور میں بھی پاکستان لوٹ گیا۔ روی نے مجھے یوں تنہا بیٹھے دیکھا تو حاضرین کو متوجہ کر کے اعلان کیا ”صاحبان! ہمارے درمیان موجود ہیں پاکستان ٹیلی ویژن کے رائٹر اور ڈائریکٹر۔

اس اعلان کے ساتھ ہی کمرے میں سناٹا چھا گیا اور پھر سب کی نگاہیں مجھ پر جم گئیں۔ ”بھئی جواب نہیں آپ کے ڈراموں کا“ ایک صاحب نے کہا اور پھر ہر طرف سے تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسنے لگے۔ جس کے فوراً بعد مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ ہو گئی۔ ’انکل عرفی‘ میں جو لڑکی تھی اس کا نام کیا تھا۔ ’خدا کی بستی‘ کا رائٹر کون تھا؟

جو ذرا جوان لوگ تھے ان کی طرف سے نئے ڈراموں کے بارے میں سوالات کیے جا رہے تھے۔ خاص طور پر ’ان کہی‘ اور ’تنہائیاں‘ کے بارے میں۔ ایک مطالبہ جو قریب قریب ہر کسی نے کیا وہ یہ تھا کہ پی ٹی وی کے ڈراموں میں کریڈٹ ٹائٹل رومن حروف میں ہونے چاہئیں کیونکہ ہندوستانی ناظرین کی اکثریت اردو رسم الخط سے واقف نہیں ہے۔

کچھ عرصے بعد جب مجھے بمبئی کے فلم سٹوڈیوز کی سیر کا موقع ملا اور میں نے پونا میں فلم انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا تو وہاں فلمی کارکنوں اور طالب علموں کو پاکستانی ڈراموں کا دیوانہ پایا۔ میرے ایک میزبان ستیش بترا مجھے کھانا کھلانے کے بعد ایک ویڈیو شاپ پر لے گئے۔ جہاں میں نے دیکھا کہ پاکستانی ڈراموں کے لیے پورا ایک سیکشن وقف ہے۔ ایک سیلز مین مجھے ایک امکانی گاہک سمجھتے ہوئے میری طرف بڑھا اور بولا ”آئیے جناب، ہمارے پاس پی ٹی وی کے تمام ڈرامے موجود ہیں۔ ڈرامہ 85 اور ڈرامہ 86 کی تمام قسطیں آپ کو مل سکتی ہیں۔ ڈرامے کیا ہیں پوری فلمیں ہیں لیکن ناچ گانے کی بکواس ان میں بالکل نہیں ہیں“ ۔ اور پھر میں دیکھا کہ پی ٹی وی کے تمام مشہور کھیل الفبائی ترتیب میں سجے ہوئے ہیں۔ اکثر ڈراموں کے گرد پوش صرف ہندی میں چھپے ہوئے تھے لیکن تصویروں سے بھی ڈرامے کا پتا چل جاتا تھا۔ ایک شوکیس میں محبوب عالم، پگڑی کا شملہ اونچا کیے مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا۔ یہ معروف سلسلہ وار ڈرامے وارث کے کیسٹ تھے۔ ان کے ساتھ ہی ’پرچھائیں‘ کے کیسٹ بھی سجے ہوئے تھے۔ گاہکوں کی ایک بڑی تعداد پاکستانی ڈراموں کے گرد منڈلا رہی تھی۔ سچ ہے کہ اگر سن 50 اور 60 ءکے عشرے ہندوستانی سینما کا سنہری دور تھے تو سن 70 اور 80 ءکی دہائیوں کو بجا طور پر پی ٹی وی ڈراموں کا سنہری زمانہ کہا جا سکتا ہے۔

عوام کے ٹیکسوں اور لائسنس فیس کی آمدنی سے چلنے والے پاکستانی ٹی وی کو عوام کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے ہر طرح کے پروگرام تیار کرنے پڑتے تھے چنانچہ بچوں اور خواتین کے خصوصی پروگراموں سے لے کر کھیل، قلم، ادب غرض ہر شعبہ زندگی پر دلچسپ معلوماتی اور دستاویزی پروگرام تیار کیے جاتے تھے لیکن جس شعبے میں پی ٹی وی نے واقعی کمال حاصل کیا وہ ڈرامے کا شعبہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جن لوگوں نے ٹیلی ویژن کا آغاز کیا تھا وہ ریڈیو اور سٹیج سے آئے تھے اور ڈرامے کے فن میں یکتا تھے۔ اسلم اظہر، فضل کمال اور آغا ناصر کا تعلق کسی نہ کسی طور ڈرامے کی پروڈکشن سے رہا تھا۔ ٹی وی پروڈیوسروں کی پہلی اور دوسری کھیپ میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کی اکثریت تھی جو ڈرامے کی ایک مضبوط روایت سے وابستہ رہے تھے۔ یہ وہی کالج تھا جس نے ماضی میں پطرس بخاری جیسے استاد اور کنہیا لال کپور اور خشونت سنگھ جیسے شاگرد پیدا کیے تھے۔ بلراج ساہنی اور دیو آنند جیسے اداکار بھی اسی کالج کے تربیت یافتہ تھے۔

مزے کی بات ہے کہ پاکستان ٹی وی کے کچھ بہترین ڈرامے ضیا الحق کے دور استبداد میں منظر عام پر آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جابر فوجی حاکم نے باضمیر ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کی تذلیل کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی اور انہیں سرعام رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ ذرائع ابلاغ پر سنسر بٹھا دیا گیا تھا جو ظل سبحانی کے مزاج سے عدم مطابقت رکھنے والے ہر جملے اور منظر کو بے دردی سے کاٹ پھینکتا تھا۔ لیکن حکام کا یہ رویہ زحمت کے پردے میں رحمت ثابت ہوا اور ادیبوں، فنکاروں اور ہدایت کاروں نے بات کہنے کے نئے نئے علامتی طریقے دریافت کر لیے مثلاً جنرل ضیا الحق نے جس زمانے میں خود ہی اپنی مدت صدارت میں پانچ سال کا اضافہ کر لیا تھا ان دنوں لاہور ٹی وی سے ایک ڈرامہ نشر ہوا جس میں ایک عوامی میلے کا منظر تھا جہاں ایک مداری نے مجمع لگا رکھا ہے اور اس کا طوطا فال نکال رہا ہے۔ ایک بوڑھا آدمی طوطے کے ذریعے اپنی فال نکالتا ہے تو بالکل ہی غیر متعلق مواد سامنے آتا ہے۔ کارڈ پر لکھا ہے۔ ’اس نوجوان کی عنقریب شادی ہونے والی ہے اور سسرال کی طرف سے بہت مالی امداد ملے گی ”۔ اس پر بوڑھے کو بہت غصہ آتا ہے اور وہ مداری سے جھگڑتا ہے کہ طوطے نے بالکل غلط فال نکالی ہے۔ مداری بہت شرمندگی سے جواب دیتا ہے کہ اصل میں یہ فال نکالنے والا طوطا نہیں ہے۔ یہ توپ چلانے والا طوطا ہے اس پر بوڑھا بھنا کر کہتا ہے“ اچھا تو اب توپ چلانے والے طوطے لوگوں کی قسمتوں کا فیصلہ کریں گے ”۔

ایک مزاحیہ سین کے پردے میں یہ جملہ سنسر کی نگاہوں میں دھول جھونک کر نشر کر دیا گیا اور سرکاری نگران بے خبر رہ گئے۔

اسی طرح اور بھی بہت سی باتیں اشارے کنائے میں ہونے لگیں جنہیں اہل نظر تو بھانپ لیتے تھے لیکن وہ اہل سنسر کے سر پر سے گزر جاتی تھیں۔ ”طنز و اشارہ، رمز و کنایہ“ کی یہ ادا سن 80 ء کے عشرے میں پی ٹی وی ڈرامے کا ایک باقاعدہ سٹائل بن گئی۔ بہت سی ناگفتنی باتیں اسی انداز کا سہارا لے کر ڈرامے میں کہہ دی جاتیں۔

خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں

گفتہ آید در حدیث دیگراں

بہانے بہانے سے مطلب کی بات کہہ جانے کا یہ فن کمال احمد رضوی کے خاکوں میں رنگ جمانے لگا اور بعد میں اس کی ایک نکھری اور ستھری شکل ہمیں انور مقصود کی ٹی وی تحریروں میں نظر آئی۔ لیکن افسوس کہ سن 80 ءکی دہائی تک پی ٹی وی کے ڈرامے نے ارتقا کی جو منازل طے کی تھیں سن 90ء کی دہائی میں وہ ساری محنت اکارت گئی اور برسوں میں تعمیر ہونے والی ٹی وی ڈرامے کی شاندار عمارت دھڑام سے زمین پر آ گری۔

ٹی وی ڈرامے کی سلطنت مغلیہ کا زوال یوں تو کئی اسباب سے ہوا لیکن بنیادی وجہ پروڈکشن کے شعبے میں غیر پروفیشنل لوگوں کی آمد تھی۔ سن 60ء اور ستر کی دہائیوں میں اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال وغیرہ نے پروڈکشن کے شعبے میں بڑی چھان پھٹک کے بعد جو نوجوان بھرتی کیے تھے ان کی بہترین تربیت کی گئی اور کچھ کو اعلیٰ تربیت کے لیے بیرون ملک بھی بھیجا گیا۔ لیکن نئی صدی کا آغاز ہونے تک، سلیکشن کا وہ معیار قائم نہ رہا۔ سیاسی دباؤ اور سفارشی کلچر نے ایسے ایسے لوگوں کو پروگرام پروڈیوسر بنا دیا جو اس فن کی الف بے سے بھی واقف نہیں تھے۔ نئی آنے والی ہر حکومت اپنے چہیتے سفارشی نوجوانوں کو ٹی وی میں بھرتی کرانے لگی اور بالآخر اس ادارے میں نکمے اور نالائق افراد کا ایک جم غفیر اکٹھا ہو گیا۔

ٹی وی انتظامیہ نے اپنے ریٹائر ہونے والے پروڈیوسروں کی مہارت سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ اگر کنور آفتاب، یاور حیات اور محمد نثار حسین جیسے نامور پروڈیوسروں کے ذریعے نئے آنے والوں کی تربیت کرائی جاتی تو آج دلی ٹی وی کی صفوں میں چند اچھے پروڈیوسر ضرور مل جاتے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ آج بھی پی ٹی وی کے پاس ملک میں سب سے بڑے سٹوڈیو موجود ہیں۔ اس کے ملازمین کی تعداد تمام دیگر چینلوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے اور اس کے سگنل کا دائرہ کار سب سے زیادہ وسیع ہے۔ لیکن چینل بدلتے ہوئے اتفاق سے پی ٹی وی سامنے آ جائے تو ہم ایک لمحہ بھی اس پر ٹھہرنا گوارا نہیں کرتے اور جلدی سے بٹن دبا کر آگے نکل جاتے ہیں۔ ایک انتہائی شاندار ادارے کا یہ عبرت ناک انجام ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).