ہم ہیں خوامخواہ اس میں

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


صحافیوں اور تجزیہ کاروں پہ یہ وقت بڑا بھاری ہے۔ انسان تو خیر یہ کیا بنیں گے حالانکہ بڑے صاحب نے اب تو خود اپنے منھ سے کہہ دیا ہے لیکن خیر، اس وقت تو یہ سب حالات حاضرہ کی دائی بنے ہوئے یہ پتا لگا رہے ہیں کہ ‘کل کیا ہو گا؟’

جب تک یہ سطور آپ کے پاس پہنچیں گی، وہ ‘کل’ آج بن چکا ہو گا۔

عمران خان صاحب جو کہ تادم تحریر وزیراعظم ہیں (اور ہماری خواہش ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کریں)، اپوزیشن کی ریلیوں کے توڑ پہ ‘امر بالمعروف’ کا جلسہ کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ ایک سرپرائز بھی دیں گے جو ترپ کا ایک ایسا پتہ ہے کہ ساری بازی ہی پلٹ دے گا۔

بات یہ ہے کہ جو کھیل جاری ہے یہ کھیل ہم بارہا دیکھ چکے ہیں۔ ’مجھے کیوں نکالا‘ اور ’اگر مجھے نکالا‘، ڈکٹیشن نہیں لوں گا،‘ ’نیوٹرل کیوں ہیں۔‘ یہ جملے بظاہر مختلف ہیں لیکن بین السطور مخاطب ان کا ایک ہی ہے۔ وہ کون ہے جو ملک میں وزیراعظم رکھتا اور نکالتا ہے، جو برسہا برس سے زندہ ہے، نام بدل کے، قالب تبدیل کر کے پھر سے آجاتا ہے، کون ہے یہ؟ آپ جانتے ہوں تو ہمیں بھی بتائیے گا۔

صورتحال کا جائزہ لینے والوں کو یہ علم تو ہو چکا ہے کہ چاروں اکے، بادشاہ اور بیگیاں تو کوئی پہلے ہی اڑا چکا ہے۔ اب تو فقط چڑی کی دکی، پان کا نہلا، اینٹ کی پنجی اور حکم کا غلام ہی ہاتھ میں رہ گئے ہیں۔

ممکن ہے ان ہی میں سے کوئی پتا کام کر جائے۔

یہ کھیل تو جو ہے سو ہے ،سوال یہ ہے کہ وہ جو سال بہ سال یہ کھیل کھلواتے ہیں، اب تک تھکے کیوں نہیں؟ ہر دوسرے برس ایک مسخرے کے سر پہ تاج رکھتے ہیں اور جب اس کی گردن موٹی ہو جاتی ہے تو اسی کی گردن میں پھندا ڈال دیتے ہیں، کب تک یہ کھیل جاری رکھیں گے؟

عمران خان صاحب آج اسی طرح بے بس اور غصے میں نظر آرہے ہیں جیسا کہ کتنوں کو ہی ان سے پہلے بھی ہم تلملاتے دیکھ چکے ہیں۔ سیاست خالہ جی کا گھر نہیں ہے لیکن جس طرح ہمارے کچھ بزرگ شاعر، ادب میں ہر نو وارد لڑکی کو ’نسائی جذبوں کی شاعرہ‘ بنانے کے درپے رہتے ہیں، اسی طرح ‘ وہ ‘ ہر ایرے غیرے کو پہلے سیاستدان اور پھر وزیراعظم بنانے کے داؤ میں رہتے ہیں۔

یہ اور بات کہ وزیر اعظم کی کرسی میں کچھ ایسی کرامات ہیں کہ لکڑی کا پتلا بھی بٹھا دیں تو کہیں نہ کہیں چوں چرا تو کر ہی بیٹھتا ہے، وہ بھی منظور نہیں۔

‘زن ،زر اور زمین‘ تینوں ہی جھگڑے کی جڑ ہیں۔

موجودہ سیٹ اپ کا انتخاب جب کیا گیا تو وہ تینوں علتوں سے پاک تھا لیکن اقتدار کی کشش پہلے ایک اور پھر باقی دو برائیوں کو بھی دامن میں سمیٹ لائی۔ پونے چار برس میں کہانی یہاں تک پہنچ جائے گی، کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔

تو صاحبو! ترپ کا پتا، استعفی ہے، قبل از وقت انتخابات یا کچھ اور، یہ معلوم ہونے میں تو اب چند گھنٹے ہی باقی ہیں۔

لیکن پتے کی بات یہ ہے کہ ترپ کا پتا کھلنے پہ بھی بازی تو ان ہی کے ہاتھ رہے گی جن کا کیسنو ہے، ہم اور آپ تو ہیں ‘خوامخواہ اس میں۔’

لگے ہاتھوں استاد ذوق کا ایک شعر سن لیجیے۔۔۔

ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بد قمار

جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments