سیاسی گہما گہمی صحافتی حلقوں کے لئے باعث تقویت


ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی گہما گہمی کے دوران  صحافتی حلقوں کو ماضی کے متقابل  بانگ بلند تبصرے کرتے ہوۓ دیکھا جا رہا ہے. ان میں اتالیق اور مقلدین دونوں کو متواتر اور یکساں مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں. بلا شبہ انہیں عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے پیش نظر ، ابلاغ عامہ کے ذرائع کے آزادانہ استعمال کی سہولت اس ذمہ داری کو بنیاد بناتے ہوۓدی جا رہی ہے کےایک جامع رائے درست اور صحیح سمت میں عوام کا سیاسی طرز فکرمستحکم کرے . لمحہ فکریہ یہ ہے کا معتقدین اس بات کا تعین کیسے کریں کے ان تبصروں میں صحافیوں کی ذاتی راۓ عوامی مسائل کا کتنے فیصد درست ترجمہ کرتی ہے. یاد رہے پاکستان کے تمام صوبوں میں جو بنیادی مسائل ہیں وہ بےروزگاری، تعلیم کی کمی، معاشی عدم استحکام، صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی ، اور سب سے اہم پاکستان کی نظریاتی اساس “مذہبی اقدار میں تغیرت” ہے. ان صحافتی حلقوں میں کچھ سیکولر ہیں کچھ مذہبی جماعتوں کے حق میں ہیں اور جو اس شعور سے محروم ہیں ان کی کثیر تعداد شامل ہے. بیشتر پاکستانی شخصیت پسندی کے زیر اثر اپنی وفاداریاں وقف کئے ہوۓ ہیں.

ان میں نظام کو کوسنے والے بھی ہیں جو نظام کی تخلیق کے عوامل کا مفہوم عوام سے چھپانے جیسے جرائم کے مرتکب ہیں. نظام کی تخلیق میں سب سے اہم ان نمائندوں کا انتخاب ہے جو نظام کے نفاز کے اہم ارکان ہوتے ہوۓ عوام کے لیے بہتر اصول وضع کر سکیں. انفرادی اور ریاستی سطح پر ان اصولوں پر کار فرما ہو کر قوم ترقی کر سکتی ہے اور ان تمام مسائل کا حل ممکن ہو سکتا ہے.  اہم ترین سوال یہ ہےکہ

کیا عوام ،مغربی ثقافت اور طرز زندگی کا آزادانہ انتخاب کر کے اس ملک کی نظریاتی اساس کو تقویت بخشنے کے حق میں ہے یا پھر یہ دور جدید کا تقاضہ ہے اور ایک غیر مذہبی اور آزاد خیال اور مذہب سے آزاد معاشرہ ہی عوام کا حقیقی نصب العین ہے ؟

اور اگر یہ حق تمام پاکستانیوں کو یکساں میسّر ہونا چاہئیے کہ وہ آزاد خیال طرز زندگی اور غیر مذہبی روایات کی تقلید کرے اور حسب منشاء زندگی گزارے تو قانونی اور آئینی طور پر عوام کے اس جذبے کو معتبر بنانے کے لیے ایسے کون سے نمائندے منتخب کئے جائیں جواس عوامی منشور کو عملی جامہ پہنائیں. کیا یہ مذہبی جماعتیں ممکن بنا سکتی ہیں ؟ یا مغربی معاشرے سے تعلیم یافتہ جدید دور کے  تقاضوں کے مطابق معاشرتی ضروریات کو سمجھنے والے افراد اس امر کے علمبردار ہونگے ؟

اگر آزاد خیال، غیر مذہبی اور سیکولر معاشرے کے حمایتی حلقوں کو عوامی اکثریت حاصل ہوتی ہے تو کیا یہ معاشرہ اپنے قیام کی معروضیت حاصل کر پائے گا ؟ اکثریت ہی جمہوریت ہے اور اگر اکثریت کا انتخاب اندھی تقلید اور سیاسی شعور کی عدم موجودگی پر مبنی ہے تو ان صحافتی حلقوں پر انتہائی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کے وہ شرح خواندگی کو مد نظر رکھتے ہوۓ درست عوامی منشور بلحاظ مذہب ، تعلیم ، ثقافت اور انصاف، عوام پر بھی آشکارکریں اور انہیں اقدار کے مطابق معاشرتی نظام کو استحکام فراہم کرنے میں ریاست کے معاونین ثابت ہوں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments