کپتان کا سیاسی سفر: ڈی چوک سے پریڈ گراونڈ تک


بالآخر کپتان کا وہ خطاب ہوہی گیا جس کا پوری قوم کو انتظار تھا۔ انتظار اس لیے کہ کپتان نے کہا تھا کہ وہ اس جلسہ میں ایک سرپرائز دیں گے۔ ایڈونچر کی شوقین قوم کے لیے بس یہی کافی تھا لہذا 27 مارچ کا دن انتظار کرتے گزرا کہ کب شام ہو اور کپتان کا وہ اہم اعلان سنیں جس کو وہ سرپرائز کہہ رہے ہیں۔ دن گزرا شام ہوئی جلسہ امر بالمعروف شروع ہوا۔ کپتان کی ٹیم نے خطاب کرنا شروع کیا ایک کے بعد ایک شعلہ بیاں مقرر سامنے آیا مگر نظریں کپتان کو دیکھنے کو بے تاب تھیں۔ خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا اور کپتان کا خطاب شروع ہوا۔ نظریں ٹی وی اسکرین پر لگی تھیں سماعتیں کچھ نیا سننے کو بے تاب، خطاب لمبا ہوا تو دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں

کپتان کے خطاب میں ایک دھمکی آمیز خط کا ذکر آیا، عالمی سازش کا تذکرہ ہوا، بھٹو کی خودداری کا ذکر بھی کیا۔ مگر سرپرائز ہنوز سرپرائز تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کپتان کا خطاب ختم ہو گیا۔ بہت دیر بعد سمجھ آئی کہ کیا یہ سرپرائز کم تھا کہ کوئی سرپرائز تھا ہی نہیں۔ مگر دل نادان ماننے سے انکاری تھا سوچا کہ شاید کوئی بات سمجھنے اور سننے میں رہ گئی ہو اس لیے دوست احباب سے پوچھا کہ سرپرائز کیا تھا مگر وہ جواب کیا دیتے وہ تو خود سراپا سوال تھے۔ یعنی وہ خود بھی سرپرائز کی تلاش میں تھے۔ تب جا کر یقین ہوا کہ سرپرائز کچھ نہیں تھا۔ المختصر یہ ایک ہارے ہوئے شخص کی لاحاصل تقریر تھی جس کا نا تو کوئی سر تھا نا ہی کوئی پیر تھا۔ یوں پریڈ گراؤنڈ کا جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا

شہر اقتدار کے باسی جانتے ہیں کہ ڈی چوک اور پریڈ گراؤنڈ کا درمیانی فاصلہ کم وبیش دس کلومیٹر ہے اور کپتان کا تبدیلی لانے والا سونامی ڈٰی چوک سے شروع ہوا اور ساڑھے تین سال کی مدت میں دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پریڈ گراؤنڈ میں مایوس کن انداز میں اختتام پذیر ہو گیا۔ 30 اکتوبر 2011 میں مینار پاکستان کے کامیاب جلسہ سے شروع ہونے والے سفر کا اگلا پڑاؤ ڈٰی چوک تھا جہاں پر کپتان کے سیاسی سفر کو نقطہ عروج حاصل ہوا۔ ایک لمبے عرصہ تک ڈی چوک پر دھرنا دیے ہوئے کپتان کی شہرت اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ تبدیلی کا سونامی قصر اقتدار کے دروازے پر دستک دینے لگا۔ کنٹینر پر سے ہونے والی تقاریر نے سماں باندھ دیا۔ تبدیلی کے خواہش مندوں نے ڈی جے کی دھنوں پر ناچتے ناچتے ڈی چوک پر گھنگرو توڑ ڈالے۔

ماحول بن گیا ذہن سازی ہو گئی اور 2018 کے عام انتخابات میں کپتان کو بقول بلاول بھٹو زرداری کے سلیکٹ کر لیا گیا جس کی وجہ سے کپتان اپوزیشن کی نظر میں سلیکٹڈ بن گیا اور اپوزیشن کی طرف سے اسی نام سے پکارا جانے لگا۔ کپتان کے حلف اٹھاتے ہی نیا پاکستان بن گیا اور کھلاڑی جیت کے جذبے کے ساتھ میدان میں اترے۔ خراب معاشی پچ پر مسائل اور عالمی مالیاتی اداروں کے بلے باز اتنے مضبوط تھے کہ کپتان کا ہر باولر ان سے پٹنے لگا۔ ہر بال باؤنڈری سے باہر جانے لگی۔ مہنگائی لانگ جمپ کرتے ہوئے بڑھنے لگی۔ ناتجربہ کار ٹیم کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کپتان نے پے درپے باولرز کو تبدیل کرنا شروع کر دیا مگر کوئی باولر کامیاب نا ہوسکا۔

حامی تماشائیوں اور کھلاڑیوں میں بددلی پھیلنے لگی مایوسی غالب آنے لگی۔ عوام تبدیلی سے متنفر ہونے لگی کپتان کے سیاسی عروج کا زوال اس وقت شروع ہوا جب وہ پہلا ضمنی الیکشن ہارا۔ اس کے بعد تو گویا ہار مقدر ہو گئی جہاں ضمنی الیکشن ہوا کتان کے کھلاڑی ہارنے لگے مہرے پٹنے لگے۔ اتحادیوں کے گلے شکوے بڑھنے لگے اپنی ٹٰیم میں سے آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ دھیمے لہجے میں ہونے والے گلے شکوے بلند آواز میں ہونے لگے۔ عوام کی طرف سے بھی حوصلہ افزائی نا ملی۔ کپتان سوچنے لگا کہ اب ایسا کیا کیا جائے کہ کھوئی ہوئی شہرت واپس لوٹ آئے۔

اور یہیں پر کپتان نے غلطی کردی۔ بجائے اس کے کہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنا کر عوام کی ہمدردی اور حمایت حاصل کرتا کپتان نے مقبول مذہبی نعروں کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔ ریاست مدینہ کے نام پر اس قدر دروغ گوئی کی گئی کہ الامان الحفیظ۔ کپتان ریاست مدینہ کا نعرہ تو لگا بیٹھا مگر اسے علم نہیں تھا کہ ریاست مدینہ شعب ابی طالب سے لے کر رات کی تاریکی میں مکہ چھوڑنے اور مدینہ کی طرف سفر کرنے کا نام ہے۔ پیٹ پر پتھر باندھنے کا نام ہے، مساوات کا نام ہے۔ باکردار، صالح، برگزیدہ اور عظیم المرتبت شخصیات کے تدبر، فہم و فراست، راست گوئی اور کردار کے زیر سایہ ریاست کے اونچے معیار قائم کرنے کا نام ہے۔

فارن فنڈنگ کیس، توشہ خانہ اسکینڈل، ادویات، چینی، آٹا، پٹرول، رنگ روڈ اسکینڈل میں لتھڑی حکومت کیسے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ طے ہو گیا کہ یہ ریاست مدینہ نہیں تھی اور نا ہی نیا پاکستان تھا۔ بلکہ یہ ایک ایسا جھوٹ تھا جو محض ساڑھے تین سال میں پکڑا گیا۔ سچ سب کے سامنے آ گیا۔ یوں کپتان کا ڈی چوک سے شروع ہونے والا سیاسی سفر ساڑھے تین سال کی مدت می دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے پریڈ گراؤنڈ میں اختتام پذیر ہو گیا۔ کپتان کوئی سرپرائز نا دے سکا کیونکہ جو کسی کے کندھوں پر سوار ہو کر آتے ہیں وہ سرپرائز نہیں دیا کرتے وہ بس احکامات کی تعمیل کرتے ہیں اور ایسا ہی کپتان نے کیا۔ رہی بات بھٹو کی خودداری اور اس کی عظمت کو تسلیم کرنے کی تو نورالھدیٰ شاہ صاحبہ نے کیا خوب لکھا ہے کہ

ہمیں تو معلوم تھا کہ بھٹو اسٹیبلشمنٹ اور دشمنوں کا گریبان پھاڑ پھاڑ کر سامنے آتا رہے گا
اعتراف بھی کراتا رہے گا
شرمندہ بھی کرتا رہے گا
سندھ کی مٹی کبھی رائیگاں نہیں جاتی

آخری بات کہ اب ہو گا کیا تو عرض ہے کہ کچھ نیا نہیں ہو گا۔ غریب اور عام آدمی کے شب و روز اور ماہ و سال اسی طرح گزریں گے جیسے پہلے گزرے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں عام آدمی کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ لہذا دوستو گھبرانا نہیں ہے اور اگر خدانخواستہ کچھ برا ہو جائے تو اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کرنا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments