پھر مارچ، لانگ مارچ، نون لیگ اور گوجرانوالہ


گوجرانوالہ پہلوانوں کا شہر ہے۔ پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ کراچی اور فیصل آباد کے بعد تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے۔ اس شہر کی تاریخ بڑی ہنگامہ خیز ہے۔ 16 مارچ 2009 کا دن اس شہر کی تاریخ میں ایک یادگار اور شاندار دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے چیف جسٹس افتخار چودھری سمیت اس وقت معزول کیے گئے تمام ججز کو بحال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان میں ججز بحالی اور جنرل مشرف کی رخصتی کے لیے پاکستان بار کونسل کے سربراہ اعتزاز احسن کی قیادت میں ایک بھرپور تحریک جاری تھی۔ اعتزاز احسن کے علاوہ منیر اے ملک، علی احمد کرد، اطہر من اللہ جیسے ولولہ انگیز وکلا کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی فعال اور متحرک کردار ادا کر رہی تھیں۔ ان میں نون لیگ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نمایاں تھیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کے آنے کے بعد بھی آصف علی زرداری معزول ججز خاص طور پر افتخار محمد چودھری کو بحال کرنے کے حوالے سے پس و پیش سے کام لے رہے تھے۔ یوسف رضا گیلانی پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ بار کونسل اور سیاسی پارٹیوں نے 16 مارچ کو ایک بھرپور لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا۔ علی احمد کرد کوئٹہ اور منیر اے ملک کو کراچی سے نکلنا تھا مگر کراچی میں وکلا پر پولیس نے اس قدر بہیمانہ تشدد کیا کہ لانگ مارچ کا منصوبہ ناکام ہوا اور وکلا کی اعلٰی قیادت کو ہوائی سفر کے ذریعے اسلام آباد پہنچنا پڑا۔

ادھر لاہور میں نون لیگ کے قائد نواز شریف کو ماڈل ٹاؤن میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ لاہور سے لانگ مارچ کا نکلنا بھی محال دکھائی دے رہا تھا۔ اس دوران اسلامی جمعیت طلبہ کے سیکڑوں کارکنوں نے جی پی او کے سامنے زبردست ریلی نکالی اور پولیس کو پیچھے دھکیل دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ماڈل ٹاؤن میں نون لیگ کے ہزاروں کارکن جمع ہو گئے۔ نواز شریف نے موقع غنیمت جانا اور تمام رکاوٹیں توڑ کر باہر نکل آئے۔ نواز شریف کو دیکھتے ہی گویا زندہ دلوں کا پورا شہر سڑکوں پر امنڈ آیا۔ نواز شریف لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے جب شاہدرہ تک پہنچے تو بلا مبالغہ لاکھوں کا مجمع ان کے ساتھ تھا۔ لوگ اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ جلوس کو لاہور سے شاہدرہ تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔

نواز شریف کا طوفانی اور متلاطم کارواں نعرے لگاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ ہر قدم پر تازہ دم قافلے اس بپھرے ہوئے مارچ کا حصہ بنتے رہے۔ اس دوران پولیس کی نفری بھی عوامی سمندر کو دیکھ کر تتر بتر ہو چکی تھی۔ رات بارہ بجے کے قریب جب یہ کارواں پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ پہنچا تو تقریباً چار لاکھ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے ولولہ انگیز نعروں اور ملی ترانوں سے رات کے سناٹے کے سحر کو پاش پاش کر رہا تھا۔ پروگرام کے مطابق اس عظیم الشان قافلے نے رات کو گوجرانوالہ ہی میں قیام کرنا تھا اور اگلی صبح تازہ دم ہو کر اسلام آباد کے لیے روانہ ہونا تھا۔

سیاست میں عوامی شمولیت کے ساتھ ساتھ ٹائمنگ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ سیاستدان حریفوں پر نفسیاتی برتری ثابت کرنے کے لیے ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں کہ ان کے اعصاب کمزور پڑ جائیں۔ ان طریقوں میں سب سے موٴثر طریقہ یہ ہے کہ لانگ مارچ یا جلوسوں کو زیادہ سے زیادہ طول دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نواز شریف رات کو بھی لانگ مارچ رواں دواں رکھ سکتے تھے مگر انہوں نے رات گوجرانوالہ میں رک کر حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی نیندیں بھی حرام کر دیں۔

ایجنسیاں لمحہ بہ لمحہ لانگ مارچ کی خبریں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز اشفاق کیانی کو دے رہی تھیں۔ تمام ایجنسیوں نے بالکل درست اندازہ لگا لیا تھا کہ اگر بروقت ایکشن نہ لیا گیا تو اگلے دن دس لاکھ سے زائد لوگ اسلام آباد پر چڑھائی کر سکتے ہیں جنہیں سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ نقص امن کا بہت بڑا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔

اسٹیبلشمنٹ نے بروقت اور صائب فیصلہ کیا۔ جنرل کیانی کی ایک فون کال کے نتیجے میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے افتخار چودھری سمیت تمام معزول ججز کو بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔

آج بارہ سال بعد ایک بار پھر وہی مارچ، وہی لانگ مارچ، وہی نون لیگ اور وہی گوجرانوالہ ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وکلا اس مارچ میں شامل نہیں اور نواز شریف کی جگہ اس مارچ کی باگ ڈور ان کی جوش و جذبے اور سیاسی شعور سے مالا مال دختر نیک اختر مریم نواز اور جواں سال بھتیجے حمزہ شہباز کے ہاتھ میں ہے۔ لاہور سے نکلنے والے قافلے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ شامل تھے کہ مریم نواز نے تین کلو میٹر کا فاصلہ تین گھنٹے میں طے کیا۔

شاہدرہ تک پہنچنے میں دس گھنٹے لگ گئے۔ قافلے میں اتنے لوگ ہیں کہ وہ چیونٹی کی رفتار سے چل رہا ہے۔ شرکا، کارکنان اور قائدین کا جوش و جذبہ دیدنی ہے۔ اس لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمٰن بھی بہت بڑا قافلہ لے کر اسلام آباد داخل ہو چکے ہیں۔ ان مارچوں کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری، لاقانونیت اور معاشی بد حالی کے ہاتھوں پسے عام شہری بھی ان میں جوق در جوق شریک ہیں۔ ادھر دوسری طرف وزیراعظم پریڈ گراوٴنڈ میں امر با المعروف کے مذہبی نعرے کا سہارا لے کر اپنی ہی حکومت یا شاید اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پاور شو کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس جلسے میں دس لاکھ شرکا اور وزیراعظم نے بڑا سرپرائز دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ریاستی و حکومتی مشینری کے بے دریغ استعمال کے باوجود کپتان کے جلسے کے انعقاد سے پہلے ہی اس سے یوں ہوا نکل چکی ہے کہ حکومت نے جلسے کی میڈیا کوریج پر پابندی لگادی ہے۔

مریم نواز اور حمزہ شہباز کا قافلہ ابھی گوجرانوالہ نہیں پہنچا کیونکہ اہل قافلہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہیں اپنی رفتار میں تیزی لانا پڑے گی کیونکہ کل شام تک انہیں بہر صورت اسلام آباد پہنچنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ گوجرانوالہ کا تاریخی شہر اس بار بھی کوئی تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہو گا یا نہیں؟ مارچ کو گوجرانوالہ سے آگے بھی سفر جاری رکھے گا یا اس بار بھی اسے اسی تاریخی شہر میں کوئی خوشخبری مل جائے گی؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments