مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!


آج کل ماحولیاتی آلودگی کا بہت چرچا ہے اور جسے دیکھیے، اس موضوع پر سماجی ذرائع ابلاغ جیسے کتاب چہرہ پر اس حوالے سے لمبی لمبی تحریر لکھ رہا ہے تو کوئی اس حوالے سے چند الفاظ میں چہچہا رہا ہے۔ اچھا! ایک اور دلچسپ بات ہے کہ بظاہر لوگوں کو پتا بھی ہے کہ پلاسٹک کے نقصانات ہیں لیکن پھر بھی اسی کو استعمال کرنے پر خود کو مجبور سمجھتے ہیں۔ پی ٹی وی پر سنہ اسی کی دہائی کا وہ اشتہار تو آپ نے دیکھا ہی ہو گا کہ جس میں ایک لڑکی ساحل سمندر پر لفافہ پھینکتے ہوئے ٹھٹھک کر کہتی ہے کہ اگر میں نے یہ لفافہ پھینکا تو مچھلیاں اور کچھوے اسے کھا کر مر جائیں گے۔

اسی طرح ہمیں سنہ 1994 میں ماہنامہ تعلیم و تربیت میں شائع ہونے والی ایک کہانی بارہا یاد آتی ہے جس میں ایک میاں بیوی کے گھر میں کوئی پودے نہیں اگتے اور مرجھا جاتے ہیں اور آخر میں پتا چلتا ہے کہ جب ان کا گھر تعمیر نہیں ہوا تھا تو لوگ اس کی زمین پر کوڑا پھینکتے تھے جس کو گھر تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار نے مٹی سے بھرائی کا خرچہ بچاتے ہوئے گھر کی بھرائی کے لیے استعمال کیا تھا۔ آخر میں میاں بیوی اس بات پر متفق ہو رہے ہوتے ہیں کہ پلاسٹک کے لفافوں کے استعمال ختم کرنا ہو گا۔

بیوی کہتی ہے کہ پلاسٹک کے استعمال شدہ لفافوں کو آگ لگانے سے وہ چر مر ہو کر ختم ہو جاتے ہیں تو اس پر میاں جو جملہ ادا کرتا ہے، وہ آج اٹھائیس سالوں بعد بھی ہمیں حرف بحرف یاد ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہاں لیکن اس سے ہم سب بھی چر مر ہو جائیں گے۔ یعنی اس حوالے سے احساس عرصے سے موجود ہے پر عملی قدم اس کے الٹ ہو رہے ہیں۔

بات سب ایک ہی کرتے ہیں کہ آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مگر دوسری طرف حال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ یہ آلودگی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اس حوالے سے ہر سال کچھ نئے مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ مثلاً چند دن پہلے ایک خبر پڑھی کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پرندے وقت سے پہلے انڈے دینے لگے ہیں۔ تو دوسری طرف یہ خبر آئی کہ پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات انسانوں کے خون میں بھی پائے جانے لگے ہیں۔ سائنسدانوں کا ابتدائی طور پر کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے جسم میں مستقل سوزش ہو رہی ہے لیکن مزید نقصانات کے حوالے سے ایک بڑی اور جامعہ تحقیق کرنا ہو گی۔

یہ تو پچھلے چند دنوں کی خبریں ہیں اور اسی کے ساتھ ہی تقریباً ملک بھر میں مارچ کے مہینے میں معمول سے آٹھ سے دس ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ کی گرمی کی لہر بھی ہم سب دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔

لیکن دوسری طرف دیکھیے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی کو اس آلودگی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ مثلاً گاڑیوں کے دھوئیں سے پیدا ہونے والی آلودگی کو ہی لے لیجئیے۔ آج سے چند سال پہلے سڑکوں پر اتنی زیادہ بڑی تعداد میں گاڑیاں اور موٹر سائیکل نظر نہیں آتے تھے کہ جتنے اب ہیں۔ جسے دیکھیے وہ موٹرسائیکل کا دھواں اڑا رہا ہے۔ اب عقلمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ پانچ دس کلو میٹر کے فاصلے تک پیدل یا سائیکل استعمال کی جائے اور دس بیس کلو میٹر یا اس سے زیادہ کے فاصلے کے لیے موٹر سائیکل استعمال کی جائے لیکن ہم نے اپنی گناہ گار آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھا ہے کہ لوگ اپنے ہی گھر کی گلی کے نکڑ کی دکان سے سودا سلف خریدنے کے لیے بھی موٹر سائیکل استعمال کر رہے ہیں۔

اب تو کوڑے دانوں سے ردی کی اشیا جیسے کاغذ، گتے، بوتلیں چننے والے اور فقیر بھی موٹر سائیکل رکشے لیے پھرتے ہیں۔ لوگ موٹر سائیکل یا گاڑی خرید تو لیتے ہیں مگر اس کا خیال نہیں کرتے کہ کہیں ان سے تیل رس تو نہیں رہا یا کہیں وہ کالا دھواں تو نہیں دے رہے ہیں۔ بس جب تک گاڑی یا موٹر سائیکل چل رہی ہے تو کوئی پروا نہیں کہ اس سے کیسا دھواں خارج ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک زیادہ تر گھرانوں میں ایک ہی گاڑی یا موٹرسائیکل ہوا کرتے تھے۔

اب ایک گھر میں کئی کئی موٹر سائیکل اور گاڑیاں ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے سائیکل خاص طور پر سہراب جیسی سائیکل قدیم زمانے کی چیز ہو گئے ہیں جو خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ بہت سے لوگ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے بارے میں بہت تفصیل سے معلومات رکھتے ہیں مگر آپ میں سے کتنے لوگوں کو علم ہے کہ سہراب سائیکل اب بننا بند ہو گئے ہیں؟ یا اس قسم کے کلاسک سائیکل جو باقاعدہ سواری اور وزن اٹھانے کے لیے بنے تھے، اب کتنے ادارے بنا رہے ہیں؟ سائیکل اور خاص طور پر سہراب جیسی کلاسک سائیکل بڑے شہروں میں اب ڈھونے سے ہی نظر آتی ہے۔

اسی طرح لوگ کوڑے دانوں پر پلاسٹک کے لفافوں میں کھانے پینے کی اشیا ڈال دیتے ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے معصوم سی سادہ چڑیوں، گدھوں، بکریوں اور مرغیوں کو پلاسٹک کے لفافوں سے کھانے کی اشیا نکالنے کے دوران پلاسٹک کے لفافے کو ہی کھاتے دیکھا ہے۔ چونکہ ان پلاسٹک کے لفافوں میں کھانے کی اشیا ہوتی ہیں، اس لیے یہ معصوم ان کو بھی کھانے کی اشیا سمجھ کر کھا جاتے ہیں۔ اب ان بکریوں مرغیوں کو انسان بھی کھاتے ہیں تو پلاسٹک کی یہ آلودگی اس طرح سے انسانوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ گدھوں کے ذریعے پلاسٹک کی آلودگی کے انسانوں میں پہنچنے کے بارے میں اہل لاہور اور چڑیوں کے بارے میں گجرانوالہ کے لوگوں سے بہتر معلومات مل سکیں گی۔

اسی طرح لوگ کوڑے دانوں پر پھیلے ہوئے کوڑے کو ثواب کا کام سمجھ کر آگ لگا جاتے ہیں کہ بس اب ہم نے کوڑے کو موثر طریقے سے ٹھکانے لگا دیا ہے حالانکہ اس عمل سے نہ صرف ہوا میں زہریلے پلاسٹک کا دھواں بھر جاتا ہے بلکہ اس عمل سے فضا میں پہلے سے موجود دھویں کے ذرات کی تعداد مزید کثیف ہو جاتی ہے جو انسانی پھیپھڑوں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ پہلے ہی یہ حال ہے کہ گاڑیوں اور دیگر ذرائع سے آلودہ ہونے والی فضا سے گھروں کے اندر بلکہ کمروں میں سانس لینا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔

لوگ گھروں، دکانوں میں اس پلاسٹک کے ذریعے لکڑیوں کو آگ لگاتے ہیں حالانکہ یہی کام درختوں کے سوکھے پتوں، سوکھی پیال اور گھروں میں بچوں کی استعمال شدہ کاپیوں کے کاغذ جلا کر کر سکتے ہیں۔ یہ سطور لکھنے کے دوران ناک میں دھویں کی بو آئی، دیکھا تو کسی نے قریبی کوڑے دان میں کوڑے کو آگ لگائی تھی۔ ہم نے اس پر ایک بڑی سی بالٹی ہانی کی انڈیل دی۔ تب جا کر سکون کی سانس آئی۔ ہماری طرف سے آلودگی کے خلاف ایک انتہائی چھوٹے پیمانے کی جدوجہد یہ ہے کہ ہم اس حوالے سے مضامین لکھ رہے ہیں۔ ہمارے گھر کے اردگرد کے کوڑے دانوں میں جو کوئی آگ لگاتا ہے تو اس پر پانی ڈالتے ہیں۔ سودا سلف خریدنے جاتے ہیں تو کپڑے کے تھیلے میں سودا سلف خریدیں اور پلاسٹک کے لفافوں سے بچیں۔

اسی طرح اب ایک دفعہ استعمال ہونے والے پلاسٹک کے ڈبوں کا رواج بہت عام ہو گیا ہے۔ چند سال پہلے تک لوگ اپنے گھروں سے ایسی کھانے کی اشیا جست، سٹیل کے ڈبوں میں لیا کرتے تھے۔ لیکن اب ہر کوئی یہ ڈبے استعمال کر رہا ہے جس سے نہ صرف ہمارے خون اور شریانوں میں پلاسٹک کے ننھے ذرات جا رہے ہیں بلکہ اسی پلاسٹک کو ٹھکانے لگانے کے لیے آگ لگانے سے مزید آلودگی بڑھ رہی ہے۔ حالانکہ اس کا ایک نہایت آسان ماحول دوست حل پہلے ہی سے موجود ہے۔

وہ ہے ایسی اشیا کو تنکوں، پتلی لکڑیوں سے بنے ڈبے میں بند کرنا اور اس سے پہلے ڈبے میں کیلے کے بڑے پتوں میں کھانا لپیٹنا۔ چٹنی اور کیچپ وغیرہ بھی اسی طرح تنکوں کی بنی پیالیوں میں کیلے کے پتوں میں لپیٹ کر اوپر سے دھاگہ باندھ کر دیے جا سکتے ہیں۔ جنوبی ہند کے علاقوں میں کیلے کے پتوں پر کھانا دینے کا رواج بہت عام ہے۔ ہمارے ملک کی ہندو برادری کے ہاں بھی کیلے کے پتوں پر کھانا دینے کا خاصا رواج ہے۔

پلاسٹک کے کوڑے میں صرف کھانے پینے کی اشیا میں استعمال ہونے والا پلاسٹک نہیں ہوتا بلکہ کئی اور قسم کے پلاسٹک جیسے کہ طبعی فضلے، بچوں کے ایک دفعہ استعمال ہونے والے گندے پوتڑے، دوائیوں کے خالی پلاسٹک کے کھوکھے اور دیگر کئی ایسی اشیا ہوتی ہیں کہ جو پلاسٹک کے لفافوں وغیرہ سے کہیں زیادہ گندی بدبو اور آلودگی خارج کرتی ہیں۔

ہمارے یہاں لوگ سماجی ذرائع ابلاغ پر تو متفق دکھائی دیتے ہیں کہ کوڑا اور آلودگی ایک بڑا حل طلب مسئلہ ہے لیکن ہم اس کی ذمہ داری دوسرے پر ڈالتے ہیں کہ وہ کچھ کرے اور خود کچھ نہیں کرتے۔ پہلے ہم خود تبدیل ہوں گے تو دوسرے بھی تبدیل ہوں گے اور تبھی جا کر حکام بھی اپنا رویہ تبدیل کریں گے۔ ہمارے یہاں لوگ اپنے گھروں کی تو صفائی کرتے ہیں لیکن محلے کو صاف نہیں رکھتے۔ اگر آپ واقعی تہہ دل سے کوڑے کو ٹھکانے لگانا چاہتے ہیں تو اس کا ایک بہتر حل یہ ہے کہ محلے دار ایک وفد کی صورت میں بلدیہ کمیٹی اور دیگر متعلقہ عہدے داروں کے پاس جائیں اور ان سے کہیں عملہ صحیح طریقے سے کوڑا اٹھا کر اسے ٹھکانے لگائے۔

محلے کے بچوں، نوجوانوں کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ کسی کو کوڑے کو آگ نہ لگانے دیں۔ تاکہ محلے والے اس اضافی آلودگی سے تو بیمار نہ ہوں۔ اب رہ گئی یہ بات کہ بڑے پیمانے پر جمع ہونے والے کوڑے کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے تو زیادہ تر ممالک میں اسے گڑھوں میں دفن کر کے زمین کی بھرائی کی جاتی ہے جبکہ چین میں زیادہ درجہ حرارت پر کوڑے کو آگ لگا کر اس سے بجلی بنانے کا طریقہ کار عملی طور پر استعمال ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments