سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا


کسی بادشاہ کے پاس بہت سے ملازم تھے، بادشاہ بہت موڈی اور ہٹ دھرم تھا دوسروں کی بات سمجھنا تو درکنار بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ بادشاہ سلامت کو جب کسی کی کوئی بات ناگوار لگتی تووہ اپنے ملازموں کو حکم دیتا کہ اسے کتوں کے آگے پھینک دیا جائے اور کتے اس انسان کو چیر پھاڑ دیتے۔ بادشاہ نے نہایت قریبی ملازموں میں ایک شخص جو بادشاہ کے پاس پچھلے بیس سال سے ملازم تھا سے ایک سوال کیا جس کاوہ جواب نہیں دے پایا۔

بادشاہ نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ اسے خون خوار کتوں کے آگے پھینک دیا جائے۔ اب ملازم نے بہت منت سماجت کی کہ عالم پناہ مجھے آپ کی خدمت کرتے بیس سال ہو گئے ہیں مجھ پر رحم کیا جائے۔ اس نے بادشاہ سے ہاتھ جوڑ کر ایک گزارش کی کہ مرنے سے پہلے مجھے دس دن دے دیے جائیں یہ میری آخری خواہش ہے، دس دن کے بعد جو آپ کا حکم۔ بادشاہ اسے دس دن کی مہلت دے دیتا ہے۔ وہ شخص دربار سے نکلتے ہی سیدھا وہاں چلا جاتا ہے جہاں خون خوار کتے بندھے ہوتے ہیں۔

وہ دس دن کتوں کی دن رات خدمت کرتا ہے ان کو کھانا خود دیتا ہے انہیں نہلاتا دھلاتا ہے یعنی کتوں سے دوستی کر لیتا ہے۔ دس دن پورے ہو جانے پر بادشاہ اسے ایک بار پھر کتوں کے آگے پھینکنے کا حکم جاری کر دیتا ہے۔ جیسے ہی بادشاہ کے ملازم اسے کتوں کے آگے پھینکتے ہیں تو کتے اسے کاٹنے کی بجائے اس ملازم کا پاؤں چاٹنا شروع کر دیتے ہیں اس کے آگے پیچھے دم ہلائے پھرتے ہیں۔ بادشاہ بہت حیران ہوتا ہے اور اسے کتوں کے پنجرے سے باہر نکالنے کا حکم دیتا ہے بادشاہ حیرانی سے دریافت کرتا ہے کہ تم نے ان خون خوار کتوں کو کیا کہا جو بجائے تمھیں نقصان پہنچانے کے پیار سے تیرے پاؤں چاٹ رہے تھے۔

ملازم بادشاہ کو کہتا ہے جان کی امان پاؤں تو بادشاہ سلامت میں نے آپ سے دس دن کی مہلت مانگی تھی۔ میں نے دس دن لگا تار ان کتوں کی خوب خدمت کی جس سے کتوں نے میری خدمت کی وفاداری میں مجھے کاٹنے اور کھا جانے کی بجائے مجھے پیار کرنے لگے اور میری خدمت کی لاج رکھ لی۔ آپ کے ساتھ میں نے بیس سال گزارے آپ کی دن رات خدمت کی اور آپ نے میری خدمت کا صلہ میری موت کے پر اونے کی صورت میں دے دیا۔ یعنی مجھے قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

خدمت اور اقتدار کا فرق یہی ہے یعنی لیڈر اور سیاست دان میں بس یہی فرق ہے، بھئی یہ راج نیتی ہے اس میں حواس کی جنگ چلتی ہے اقتدار کی خاطر کبھی بھی کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ سیاست ایک ایسی بندریا ہے جو وقت پڑنے پر اپنے ہی بچے پاؤ تلے دے دیتی ہے۔ اس گھمسان کی جنگ میں جہاں خدمت، طاقت، اقتدار اور اختیار پر قربان کی جاتی ہو وہاں سیاسی ورکر کسی پیادے سے کم نہیں۔ ایک طرف عمرانی حکومت اپنی سرکار بچانے کی کوشش کر ر ہی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔

ہر دن سیاست نئے رخ بدل رہی ہے، کل کا حرام آج کا حلال ہو رہا ہے کل کے ڈاکو آج کے ساتھی بن رہے ہیں۔ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ہمارے عوام کو اگر سمجھ نہیں آ رہی تو پھر ”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو خیال جس اپنی حالت کے بدلنے کے کا ۔“ ۔ ابھی تو ایک بزدار کی قربانی ہوئی ہے کل کسی اور کی بھی ہو سکتی ہے۔ جب تک عدم اعتماد کا نتارہ ہو نہیں جاتا سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔

لیکن ایک بات نہایت واضح ہے کہ موجودہ سیاست مکمل بحران کا شکار نظر آ رہی ہے۔ مثلاً فرض کریں عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو اس بندر بانٹ میں اگلی حکومت بھی بن جاتی ہے تو ملک کی بہتری کہاں پر ہے۔ کیونکہ ایک طرف چوہدری تو دوسری طرف نون لیگ اور تیسری طرف پی پی پی کی کھینچا تانی شروع ہو جائے گی۔ وہ سیاست جو اگلے الیکشن سے پہلے ہو رہی ہے ایک نئی سیاسی کھینچا تانی کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ پہلے اقتدار کی جنگ لڑی جار ہی تھی پھر عہدوں سے ملک کی بوٹیاں نوچی جائیں گی اور ملک کا سب سے متاثر طبقہ یعنی عوام دو وقت کی روٹی کے لیے اسی طرح مارا مارا پھرے گا جیسے اب تک پھر رہا ہے۔

اپنی اپنی ریاستوں کے بادشاہ اپنی بوٹی کی خاطر اپنے اپنے حصہ کے جانور حلال کرتے رہیں گے۔ دنیا ہماری سیاسی ہوس کا تماشا ایسے ہی دیکھتی رہے گی۔ ایک بیوقوف جائے گا تو دوسرا کرپٹ آ جائے گا اور اسی طرح جھوٹی امید کی نیند میں مست عوام ڈھول کی تھاپ سیاست کے نئے روپ دھاروں کے سامنے محو رقص ہوتی رہے گی۔ خدا ہمیں اور ہمارے وطن اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments