کیا جنوبی پنجاب کے شہر جام پور کے باسی پاکستانی نہیں؟


اندھیری گلی میں بچہ سسکتے ہوئے پاس سے گزرا تو دل ڈوب سا گیا۔ میں جو دوست کے انتظار میں موبائل میں مگن کھڑا تھا، فوراً موبائل کی لائٹ آن کی تو دیکھا چھوٹا سا بچہ گندگی میں لتھڑے ہونے کی وجہ سے رو رہا تھا۔ یہ گندگی اسی گلی میں پورے محلے کی سیوریج کے پانی کی تھی۔

اس گندگی سے پیدا ہونے والی اذیت کا ویسے تو ہر ایک ماہ میں کچھ دن کے لئے گھر واپس آنے پر سامنا تو کرنا پڑتا ہے۔ مگر یہ ایک ہی دن میں دوسرا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے مرحوم خالو کی میت کو گھر سے کندھا دے کر عیدگاہ تک جاتے ہوئے بھی کلمہ شہادت کے ساتھ دوسری آواز یہ بھی لگتی رہی کہ دھیان سے چلو کہیں سیوریج کے نالے میں نہ جا گریں۔

ان حالات پر کڑھتے ہوئے جب یہ تحریر لکھنے بیٹھا تو بجلی جانے کی وجہ سے صحن میں بیٹھنا پڑا۔ موبائل کی روشنی پڑتے ہی جہان اس پورے گندے نالے میں پلنے والے مچھر آن پہنچے وہاں اس سے اٹھنے والے تعفن بھی قیامت خیز تھا۔ مچھروں کی یلغار سے تنگ ہوتے ہوئے اتنا تنگ ہوا کہ بغاوت کا دل کیا کہ جا کر اہل اقتدار سے لڑ پڑوں اور یہ سوال پوچھوں کہ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟ کیا ہمارا اتنا بھی حق نہیں ہے کہ ہمیں دو ہزار بائیس میں بھی سیوریج سسٹم جیسی بنیادی ضرورت مل سکے؟ کیا اتنا بھی حق نہیں ہے کہ صاف پانی میسر ہو سکے؟ کیا ہمیں اتنا حق نہیں ہے کہ ایک بڑے شہر میں ہوتے ہوئے بھی بجلی جیسی سہولت ملے؟ ہماری جانیں تو اتنی ارزاں ہیں کہ شہر کے وسط میں سے انڈس ہائی وے گزاری گئی ہے۔ یہ ہائی وے ملک کی تیس فیصد تجارتی ٹریفک کو کراچی سے خیبر تک پہنچانے کا کردار ادا کرتی ہے۔

ملک کے باقی تین صوبوں کے لئے اس سہولت کی قیمت ہماری ماؤں کی گود اجاڑ کر ملتی ہے۔ یہ ہائی وے قربانی مانگتی ہے اور شہر سے نکلنے والی یہ ہیوی اور تیزرفتار ٹریفک ہمارے بھائی، بیٹوں، بزرگوں کو کچل کر نکل جاتی ہے۔

بد قسمتی کا یہ عالم ہے کہ اتنی بڑی ہائی وے روجھان سے ڈیرہ غازی خان تک بمشکل تیس سے چالیس فٹ چوڑی ہے۔ وہ بھی اتنے کھڈوں سے بھری ہوئی کہ جب بھی سہون شریف یا سخی سرور شریف میں عرس ہو تو زائرین کو لے کر جانے والی ایک نہ ایک بس اس جگہ سے گزرتے ہوئے الٹ جاتی ہے۔

یہ حادثات اتنا خوفناک ہوتے ہیں کئی دفعہ گاڑیوں کی باڈی کاٹ کر لاشوں اور زخمیوں کو نکالا جاتا ہے۔

اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خوفناک حادثات کا شکار بننے والے اس علاقے کے واحد تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی ایمرجنسی میں مرہم پٹی کے لئے بھی سامان موجود نہیں ہوتا ہے۔

قارئین کرام یہ رونا بلوچستان کی کسی دور دراز کے علاقے کا نہیں ہے نہ ہی کسی پہاڑی علاقے کا ، یہ حالات یہ رونا یہ مرثیہ ترقی یافتہ پنجاب کے جنوبی حصے کے آخری ضلع راجن پور کی تحصیل جام پور کا ہے۔

مجھے لاہور میں چودہ سال ہونے والے ہیں اور ہر دفعہ اپنے آبائی علاقے کے بارے جواب دیتے ہوئے چار شہروں کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ جس کے بعد ڈیرہ غازی خان کا بتانے پر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ بھائی آپ کا یہ علاقہ سندھ میں آتا ہے؟

حکومت پاکستان کے سروے کے مطابق یہاں کے اسی فیصد بچے سکولوں کا منہ نہیں دیکھ پاتے۔ بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ نوجوان کراچی لاہور جاکر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ باقی بچ جانے والے کالا پتھر یا کیڑے مار دوائی کھا کر اپنی جان کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں کالے پتھر سے ہونے والی اسی فیصد خودکشیاں راجن پور بالخصوص جام پور میں ہوتی ہیں۔

یہاں پر تعینات سرکاری افسران پوسٹنگ ہونے پر سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے، مفت کی تنخواہ اوپر سے رعایا پر حکمرانی الگ کرتے ہیں۔ انگریز چلے گئے مگر ایسٹ انڈیا کمپنی والا نظام کی وراثت جام پور راجن پور کہ نوکر شاہی نے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔

قارئین کرام یہ سات سو الفاظ پر مشتمل تحریر لکھتے ہوئے دو دن لگ گئے، کیونکہ رات میں مچھروں اور لوڈشیڈنگ سے بہنے والے پسینے سے ہونے والی الجھن میں بار بار لکھتے لکھتے ادھورا چھوڑ دیتا تھا۔ میرا یہ ایک بار پھر سوال ہے کہ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟ ہمارے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی تو بے حسی نا اہلی کا پیکر ہیں کیا حکومت پاکستان اور ریاست کو بھی ہمارا احساس نہیں ہے؟ اگر نہیں تو ہمیں اس احسان سے معاف ہی رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments