اپوزیشن کی امیدوں پر پانی پھیرتے چودھری پرویز الٰہی


اپنے لکھے کالموں کا حوالہ دینا مجھے برا لگتا ہے۔ عقل کل ہونے کے دعوے دار ہی اس علت میں مبتلا ہوتے ہیں اور مجھے اپنی محدودات کا بخوبی علم ہے۔ اس کے باوجود یاد دلانے کو مجبور محسوس کر رہا ہوں کہ چند ہفتے قبل جب شہباز شریف صاحب چودھری برادران کے لاہور والے گھر حاضری دینے پہنچے تو میں نے اسے کارزیاں پکارا۔ یہ اضافہ کرنے سے بھی باز نہ رہا کہ مذکورہ حاضری انہیں کوئی سیاسی فائدہ پہنچانے کے بجائے بالآخر ان کی ذات اور جماعت کے لئے شرمندگی کا باعث ثابت ہوگی۔ پیر کی شام میرا اندازہ درست ثابت ہو گیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی سہ پہر چار بجے شروع ہونا تھا۔ صحافیوں کو اس کے دوران شدید ہنگامہ آرائی کی توقع تھی۔ انہیں گماں تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی کے دفتر میں جمع کروائی تحریک عدم اعتماد کو حکومت ایوان میں باقاعدہ پیش کرنے کا موقعہ فراہم کرنے میں تاخیری حربوں سے کام لے گی۔ اپوزیشن کو اطمینان دلانے کے لئے تاہم سپیکر کے دفتر میں ان کے سرکردہ رہ نماؤں کو بلاکر وعدہ ہوا کہ ان کی جانب سے جمع کروائی تحریک پیر کے دن ہی ایوان میں باقاعدہ پیش کرنے کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

ایک گھنٹہ کی تاخیر کے بعد چار کے بجائے پانچ بجے اجلاس شروع ہوا تو پریس لاؤنج میں نصب ٹی وی سکرینوں پر ٹکر چلنا شروع ہو گئے کہ چودھری پرویز الٰہی اپنے اسلام آباد والے گھر سے وزیر اعظم سے ملاقات کی خاطر بنی گالہ روانہ ہو گئے ہیں۔ اس خبر سے چند گھنٹے قبل اے آر وائی ٹی وی کے متحرک اور باخبر رپورٹر صابر شاکر ”بریکنگ نیوز“ کے ذریعے یہ اطلاع دے چکے تھے کہ عمران خان صاحب نے بالآخر عثمان بزدار کی جگہ پرویز الٰہی صاحب کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چودھری صاحب کی بنی گالہ روانگی ان کی دی خبر کی تصدیق کرتی محسوس ہوئی۔

چودھری صاحب کی عمران خان صاحب کے ہاتھوں بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نامزدگی حکمران جماعت کے اس دعویٰ کا ا ثبات بھی ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے وزیر اعظم صاحب نے اپنے سینے کے ساتھ کئی ”ٹرمپ کارڈ“ لگارکھے ہیں۔ وہ انہیں کھیلیں گے تو اپوزیشن بوکھلا جائے گی۔ پرویز الٰہی کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی نے یقیناً ا پوزیشن کو پریشان کر دیا ہے۔

یہ بات برحق کہ قومی اسمبلی کے لئے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جولائی 2018 کے انتخاب کے دوران منتخب ہوئے افراد میں سے کم از کم 25 افراد وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو رضا مند ہوچکے ہیں۔ حکومت کا ارادہ تھا کہ ناراض اراکین کی جانب سے عمران خان کے خلاف ووٹ کو قومی اسمبلی کے سپیکر ”مسترد“ تصور کریں۔ انہیں شمار بھی نہ کیا جائے۔ اس کے بعد فلور کراسنگ کے مرتکب اراکین کو نا اہل کروانے کے لئے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا جائے۔ فلور کراسنگ کی وجہ سے ہوئی نا اہلی کے حوالے سے عمران حکومت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع بھی کرچکی ہے۔ وہ اعلیٰ عدلیہ سے آئین کے آرٹیکل 63۔ Aکی ایسی تشریح کی خواہاں ہے جو منحرف اراکین کو انتخاب میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نا اہل قرار دے۔ جس تشریح کی توقع باندھی جا رہی ہے اگر فراہم ہو گئی تو تحریک عدم اعتماد پر ہوئی گنتی کے دوران عمران خان صاحب کے خلاف ووٹ ڈالنے والے ”خودکش“ ہی تصور ہوں گے۔

حکومتی اراکین کو تاحیات نا اہلی کے خوف سے محفوظ رکھنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہ نما گزشتہ کئی دنوں سے ”اتحادی“ جماعتوں سے مسلسل رابطے میں تھے۔ ان جماعتوں کے پاس 17 ووٹ ہیں۔ اپوزیشن پراعتماد تھی کہ اگر ان میں سے 12 اراکین بھی تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو آمادہ ہو گئے تو حکومت سے ناراض ہوئے اراکین کوقانونی مشکلات کے بھنور میں پھینکنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ توجہ چودھریوں کی پاکستان مسلم لیگ (ق) پر مرکوز رکھی گئی۔ ان پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے یہ تصور بھی ذہن میں رکھا گیا کہ اگر گجرات کے با اثر جاٹ جن کے نام نہاد ”مقتدر حلقوں“ سے تعلقات بھی نہایت دیرینہ اور گہرے ہیں عمران خان سے جدائی پر آمادہ ہو گئے تو عوام کی اکثریت بآسانی سمجھ جائے گی کہ ”وہ“ واقعتاً نیوٹرل ”ہو گئے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کی عمران خان کے ساتھ پیر کی شام ہوئی ملاقات نے اس تناظر میں باندھی امیدوں پر بھی پانی پھیردیا ہے۔

چودھری پرویز الٰہی ٹھوس سیاسی وجوہات کی بنا پر خواہش مند تھے کہ عمران خان کا ساتھ چھوڑنے کے عوض انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب کرنے کا یقین دلایا جائے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پنجاب جس کا ”کلہ“ تصور ہوتا ہے ابتدا اس امر کو رضا مند نہیں تھی۔ آصف علی زردا ری کے اصرار نے بالآخر نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ کو اس کے لئے رضا مند کر دیا۔ بہت لیت ولعل کے بعد مہیا ہوئی رضا مندی کے باوجود مسلم لیگ (نون) بضد رہی کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے چند ہی روز بعد پرویز الٰہی اس صوبے کی اسمبلی کو تحلیل کروانے کا عمل شروع کریں۔ اس کے نتیجے میں فوری انتخاب یقینی ہوجائیں گے۔

مسلم لیگ (نون) کو خدشہ ہے کہ اگر پرویز الٰہی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے صوبے کی بقیہ آئینی مدت مکمل کرنے کو ڈٹ گئے تو اپنی انتظامی صلاحیتوں اور سیاسی جوڑ توڑ والی مہارت کے ذریعے ان کی جماعت کے بے تحاشا ”الیکٹ ایبلز“ کو اپنا ہمنوا بنالیں گے۔ انتخابات اگر 2023 تک ٹل گئے تو نواز شریف سے وابستہ ”ووٹ بینک“ اپنا اثرکھونا شروع ہو جائے گا۔

عمران خان صاحب کا فوری ہدف مگر اپنے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانا ہے۔ اسے ناکام بنانے کے بعد وہ خود بھی 2023 تک وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رہنا چاہیں گے۔ سیاسی حرکیات واہداف کے حوالے سے لہٰذا چودھری پرویز الٰہی اور عمران خان ”ایک پیج“ پر ہیں۔ اس ضمن میں فقط باقاعدہ اعلان ہونا تھا جو پیر کی شام ہو گیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے اگرچہ اب بھی ہمت نہیں ہاری ہے۔ یہ کالم لکھنے تک ان کے چند سرکردہ رہ نماؤں کو کامل اعتماد تھا کہ اتحادی جماعتوں سے وابستہ اراکین کی اکثریت تحریک عدم اعتماد کی حمایت ہی میں ووٹ ڈالے گی۔ وہ یہ بھی اصرار کر رہے ہیں کہ پرویز الٰہی صاحب نے مبینہ طور پر ”سولوفلائٹ“ کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین اور ان کے صاحبزادے کو ناراض کر دیا ہے۔ میں ذاتی طور پر اگرچہ چودھری خاندان میں برسرعام نفاق ہوتا نہیں دیکھ رہا۔ طارق بشیر چیمہ کی ”بغاوت“ محض ذاتی ہی رہے گی۔

ویسے بھی نگاہیں اب پنجاب کی جانب مبذول ہو چکی ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ عمران خان صاحب کے ہاتھوں نامزد ہوجانے کے بعد چودھری پرویز الٰہی خود کو کس انداز میں پنجاب اسمبلی سے وزیر اعلیٰ منتخب کروائیں گے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments