پاکستان کا اصل مسئلہ اور برادر مسلم ممالک کا بدلتا رویہ


پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر اپنے مقصد کے حصول کی غرض سے آئین، قانون کو ناصرف کے توڑا جاتا ہے بلکہ اس کا فخر یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ مذہبی معاملات کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ نواز شریف کے خلاف سازش عروج پر تھی تو اس وقت موجودہ وزیر داخلہ پورے ملک کو آگ لگانے کی تقریر کر رہے تھے اور ان کا مطمح نظر ہر قیمت پر حکومت میں آنا تھا اور اب وہ ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے کے خواہاں ہے کہ جس سے وہ آگ بجھائی نہ جا سکے جو ان کے دور میں لگا دی گئی ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں آمریت کی نئی آگ لگ جائے۔

مذہبی کارڈ کا استعمال بھی اسی نیت سے کیا جا رہا ہے کہ جیسے دیگر تو ان معاملات پر جذبات رکھتے ہی نہیں ہیں اور اکیلے صرف موجودہ حکمران ہی ان معاملات پر مضطرب ہیں۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کانفرنس کا استعمال بھی صرف اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کیا جا رہا ہے کہ حالاں کہ اگر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ واضح طور پر محسوس ہو گا کہ یہ پاکستان میں اس سے قبل منعقد کی گئی وزرائے خارجہ کی کانفرنسوں کے مقابلے میں نمائندگی تک پوری نہیں رکھتی تھی جب اس کی نمائندگی ہی پوری نہیں تھی تو پھر ایسی صورت میں اس سے کسی قسم کے نتائج کی توقع کرنا ماسوائے ڈینگیں مارنے کے اور کچھ نہیں ہے۔

جب میں نمائندگی کی بات کر رہا ہوں تو اس کو واضح کرنے کی غرض سے بیان کرتا چلوں کہ وطن عزیز کے ہمسائے میں دو مسلمان ممالک موجود ہیں۔ دونوں ایک مذہبی تشخص رکھتے ہیں ان میں افغانستان کو یہ بھی حیثیت حاصل ہے کہ ان کی موجودہ حکومت کے حوالے سے یہ تاثر ہے کہ اس کے کامیاب ہونے کے لیے پاکستان کی اس کو شدید ضرورت بھی ہے جبکہ ایران کو ایک ”تنہائی“ کا احساس ہے مگر اس سب کے باوجود اس کانفرنس میں ہمارے ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے وزرائے خارجہ حاضر نہیں تھے۔

ہم ان دونوں کو شریک نہیں کروا سکتے تو ان سے معاملات کس نہج پر ہوں گے یہ سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر مزید گہرائی سے اگر ہم غور کریں تو عین اس وقت جب اس کانفرنس کا انعقاد وطن عزیز میں کیا جا رہا تھا تو اسی وقت ہمارے برادر اسلامی ممالک جن کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں موجود تھے کہ کاروباری افراد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بہت بڑی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کر رہے تھے۔ دنیا میں یہ طے شدہ اصول ہے کہ دوست ممالک تو دوست ممالک، دوسرے بھی متنازع علاقے میں سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب کرتے ہیں مگر اس موقع پر سرمایہ کاری کر کے نئی دہلی کو کیا پیغام دیا گیا اس کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں ہے۔

اس کانفرنس کے انعقاد سے دوسرا یہ نتیجہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیسے اس سے قبل پاکستان میں کبھی او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد نہیں ہوا تھا۔ اس سے قبل جمہوری ادوار میں نواز شریف کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے 1993 میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی تیاریاں کی تھی اور یہ اجلاس اپریل 1993 کے آخری ہفتے میں منعقد ہوا تھا مگر اس وقت نواز شریف حکومت غلام اسحاق خان کی آمرانہ خواہش کا شکار ہو کر ایک ہفتے قبل معزول ہو چکی تھی بعد میں غلام اسحاق خان کے اس اقدام کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

اسی طرح مارچ 1997 میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں پاکستان کو اس کی 50 ویں سالگرہ پر مبارکباد دینے او آئی سی کا خصوصی سربراہی اجلاس پاکستان میں منعقد ہوا تھا اور اس اجلاس کی خاص بات یہ بھی تھی کہ سعودی عرب اور ایران دونوں کی نمائندگی موجود تھی۔ موجودہ اجلاس کی مانند ایک فریق غیر حاضر نہیں تھا اور نہ ہی کوئی اس وقت مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کر رہا تھا بلکہ اس کے اعلامیہ میں یروشلم اور کشمیر دونوں کا ذکر موجود تھا۔

اس لیے اس کانفرنس کو یا دیگر مسائل کو اپنی ڈوبتی کشتی بچانے کے لئے استعمال کرنا درحقیقت ناصرف کہ بین الاقوامی معاملات سے کھلواڑ کرنا ہے بلکہ ملک میں بھی غیر ضروری طور پر مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کی انتہائی غیر ذمہ دارانہ کوشش ہے۔ غیر ذمہ دارانہ کوششوں کا حال ابتدا میں ”آگ لگانے“ لگانے کی خواہش کے ذکر سے کیا تھا اور اب یہ حالت ہے کہ آگ جو لگانی تھی لگا دی اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ پر خودکش حملہ کرنے کی خواہش کا ایک دوسرے حکومتی رہنما اظہار کر رہے تھے کے اگر خودکشی جائز ہوتی تو میں خود کش حملہ پارلیمنٹ پہ کرتا ہے یعنی جن کے نزدیک خودکش حملہ جائز ہے ان کو تو اب حکومتی اراکین کا فتوی بھی میسر آ گیا ہے۔ کن لوگوں سے پالا پڑا ہے۔ حد ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments