تامل ٹائیگر کے دیس میں


نور ایلیاء قریب آتے ہی گاڑی کی رفتار کچھ کم ہو چکی تھی، سڑک کے پیچ و خم اور ٹریفک کا زیادہ ہونا رفتار کم ہونے کی وجہ بنے، ڈرائیور عرفان جو ہر وقت گاڑی اڑا دینے کے موڈ میں ہوتا ہے، یہاں ان کا بس نہیں چل رہا تھا، کینڈی سے نور ایلیاء آتے ہوئے ٹریفک اس قدر زیادہ نہیں ہے، مگر جب ہم نور ایلیاء سے بنٹوٹا کو جا رہے تھے تو اس سڑک پر بہت زیادہ ٹریفک تھی، سفر بھی رات کا تھا، اس سڑک پر دو بار ہم حادثے سے بال بال بچے تھے۔ ٹاٹا کمپنی کی پبلک بس ہمیں چھو کر گزری تھی۔

عرفان کا تعلق اس فرقے سے ہے جو دماغ کی نہیں سنتے ہیں، دل کی کرتے ہیں۔

نور ایلیاء کے مضافات میں پہنچنے کے آثار پیدا ہو رہے ہیں، ہو سکتا ہے ہم بہت زیادہ قریب نہ ہوں مگر نور ایلیاء میں زیادہ فاصلہ بھی نہیں رہتا ہے، کسی بھی شہر میں داخل ہونے سے پہلے اس کی فضاء استقبال کرتی ہے، یہ استقبال ایک کیفیت ہے جو دیکھی نہیں جاتی، محسوس کی جاتی ہے۔

سو ہم نے محسوس کیا اور اندازہ لگایا کہ آدھے گھنٹے تک پہنچ جائیں گے۔ دوپہر ڈھل چکی ہے، اور اس کے ساتھ بھوک کی شدت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

ہم شہر میں داخل ہوچکے ہیں، خاموش اور پر سکون شہر میں۔ کہیں پر کوئی ہنگامہ خیزی نہیں، کوئی بھاگ دوڑ نہیں، نہ کوئی دھکم پیل ہے اور نہ ہی کوئی ایک دوسرے کو پھلانگ رہا ہے، یہ نہیں کہ شہر خالی تھا، یہاں لوگ نہیں بستے تھے، ان کے پاس گاڑیاں نہیں تھیں۔ سب کچھ تھا، مگر شور نہیں تھا، ان کی گاڑیوں کے سائلنسر بھی گونگے تھے، نہ چنگھاڑتے تھے، نہ دھواں چھوڑتے تھے۔ کیسے لوگ ہیں، شور کے بغیر بھی سکون سے رہ رہے ہیں۔

شہر کے درمیان سے گزر کر گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے رکی، پارکنگ کی جگہ نہ ملنے کے سبب ہم نے اپنی گاڑی ریسٹورنٹ سے کچھ فاصلے پر کھڑی کی اور انڈین ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے جہاں سیاحوں کا رش تھا۔

ریسٹورنٹ کی تعمیر خوبصورت تھی، اندر اور باہر لکڑی کا کام نفاست سے کیا گیا تھا، سیاحوں میں زیادہ تر فیملیز تھے، کچھ کھانے پر ٹوٹ پڑے تھے اور کچھ آرڈر دے کر انتظار کر رہے تھے، پہلے ہال میں داخل ہوئے، وہاں بیٹھنے کی کافی گنجائش تھی، لیکن ہمیں ہال کی بجائے باہر بیٹھنا زیادہ اچھا لگا۔ ریسٹورنٹ مین سڑک پر تھا، سڑک کے ساتھ سبزہ زار اور اس کے بعد آنکھوں کو خیرہ کرنے والا منظر تھا۔

ہمارے آرڈر میں 12 روٹیاں لکھ کر ویٹر کچھ لمحے رک گیا اور دو بار تصدیق بھی چاہی کہ واقعی تین افراد 12 روٹیاں بھی آرڈر کر سکتے ہیں۔ برساتی موسم میں بھوک زیادہ لگتی ہے اور یوں بھی ہم کینڈی سے بغیر ناشتے کے نکلے تھے۔

سامنے جھیل تھی، چاروں طرف سبزہ تھا، جھیل کے اس پار ڈھلوان سی جگہ پر گھر بنے ہوئے تھے، اس پار سبزہ اور بھولوں پر کشیدہ کاری کی گئی تھی، منظر ایسا کہ جہاں نگاہ ٹھہرے تو ٹھہر ہی جائے اور انسان پلک جھپکنا ہی بھول جائے ریسٹورنٹ کی لان میں بیٹھ کر اس خوبصورتی کو دیکھا جاسکتا ہے، ناپا جاسکتا ہے، محسوس کیا جاسکتا ہے اور روح کی گہرائیوں میں اتارا جاسکتا ہے۔

نور ایلیاء کو لٹل انگلینڈ بھی کہتے ہیں، سری لنکا آنے والے سیاح نور ایلیاء نہ آئیں یہ ممکن نہیں ہے۔

کھانے سے فراغت کے بعد خوبصورت جھیل کے کنارے ٹہلتے رہے، جہاں کچھ لمحے بیتے، صبح کے نکلے تھے، تھکان زیادہ ہو چکی تھی اس لیے اسی پر اتفاق ہوا کہ ہوٹل جاکر آرام کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments