سیاست


جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تب سے لے کر آج تک جتنا پاکستان کا معیار ہے وہ اتنا اچھا نہیں رہا۔ جو بھی اس ملک میں حکمران بنا اس نے خود کو سنوارا اپنا خاندان کی معیشت بہتر کی اور یہیں چسکا منہ کو لگا کر جمہوریت کو تباہ کر دیا۔ اگر محمد علی جناح چاہتے تو وہ اس ملک میں صدارتی نظام نافذ کرتے۔ جب قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا تو تقریباً سبھی ممالک کی ہمدردی اور مدد پاکستان کے ساتھ تھی کیوں کہ قریبا سب ہی ممالک قائد اعظم کو سمجھتے تھے کہ اتنا آزاد خیال اور تحمل مزاج لیڈر، اگر یہ اپنی قوم کا لیڈر ہے تو اس کی قوم تو الگ ہی طرز عمل پیش کرے گی۔

مگر ہمارے خونخوار ملا اور جیب کترے غداروں کی وجہ سے آج تک اس نظام سے محروم رکھا جو کبھی قائد اعظم نے سوچا تھا۔ بنگال ٹوٹا، ذاتی انا کے باعث مگر اس کے متعلق صرف یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بہت دور تھا اور آرمی پہنچ نہ سکی۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ جب تم بچوں کو تاریخ سے دور کر کے اسے حقیقت سے دور کر دو گے تو تم چھپ جاؤ گے؟ نہیں! سچ ہمیشہ ننگا ہوتا ہے اور یہ ننگا بھی کر چھوڑتا ہے۔

یہ تو بس تمہید باندھی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پینتیس چالیس سال سے جو لوگ آپس میں کتا کتا اور چور چور کہتے رہیں آج ان کا اتحاد دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے اور علامہ اقبال اس موقع پر بہت یاد آ رہے ہیں :

بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ابلیس!

ایک شخص اس بات پر مسلسل تبصرہ کر رہا تھا کہ اپوزیشن کی دو سو سیٹیں ہوں گئی ہیں اور آصف علی زرداری نے میڈیا اور صحافیوں کو دعوت دی اور اس نے کہا گن لو اور تصویریں اتار لو پورا دو سو آدمی ہیں۔ ہمیں نہ ایسی خبر ٹی وی پر دکھائی دی اور نہ ہی کہیں سوشل میڈیا پر ایسے ہی تبصرے اپنے سے گڑ کر اسے سیاست کا نام دے دیتے ہیں۔ سیاست جھوٹ کا نام نہیں بلکہ سیاست ایک مقدس پیشہ ہے۔

مولانا فضل الرحمان ہر مرتبہ اسمبلی میں بیٹھتے تھے اب سیٹ نہیں ملی تو نکل پڑے حکومت گرانے۔ سب لوگ جلسہ کر رہے تھے اور مولانا صاحب اجتماع سجائے بیٹھے تھے۔ یعنی مذہب کا پہناوا ڈال کر اپنی سیاست کو پاک کر دیا۔

نواز شریف جب عدم اعتماد ناکام ہوگی تو اسے کندھا لگانے کے لیے آئیں گے۔ شاید یہ ایک خواب ہے۔ جسے ملک کی عدالتیں نا اہل قرار دے دیں وہ سیاست سے بعض نہ آئے اور سیاسی بندہ کہلائے تو کیا یہ عدالت جیسی مقدس جگہ کی توہین نہیں؟ میرے کہنے سے کیا ہو گا یہاں جو بھی سوال کرتا ہے یا تو وہ مار دیا جاتا ہے یا اسے ذلالت دے دی جاتی ہے۔ کیوں کہ سچ ننگا ہے اور یہ ننگے پن سے گھبراتے ہیں۔ شاید یہ ان کا مذہبی عقیدہ ہے۔

عمران خان مذہبی شخص ہے مگر اس وقت وہ محض باشعور انسان کے لیے معتبر انسان ہے۔ وجہ صرف ان چور ڈاکؤوں کے آپس میں اکٹھ ہونے کی بنا پر ہے۔ پاکستان میں پانچ سال مکمل حکومت وہ ہی کر سکتا ہے جو کرپشن اور چوری کے داؤ پیچ جانتا ہے۔ چھوٹی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے باقی ملک کھوکھلا ہو جائے انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہ طبقہ اٹھیٹ قسم کا مذہبی ہے مگر مذہب کا اس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

یہ لوگ خود کرپشن کو ترجیح دیتے ہیں اور چوری کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ یہ اپنے جن چور لیڈروں کو جس طرح سے پیٹھ پیچھے گالیاں دیتے ہیں ان کے سامنے آنے پر ان سے بڑا معتبر کسی کو نہیں سمجھتے۔ جس دن یہ پیٹھ پیچھے والا رویہ اس کے سامنے اپنائیں گے تو یہ حق پر آ جائیں گے۔ مگر حق بھی حق والے کو ملتا ہے انتشار پسندوں کو نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments