نیا نسائی سوشل کنٹریکٹ


مارکیز نے اپنے ایک خطبہ میں کہا؛ ہزاروں سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ مرد دنیا کو فطرت سے قریب رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ کیونکہ وہ فطرت شناس نہیں ہے۔ یہ کام عورت ہی کر سکتی جو ہمیشہ فطرت سے قریب، فطری تقاضوں کے لیے آمادہ اور تخریب سے گریزاں رہتی ہے۔

مارکیز کا تھیسز مردانہ سماج کی پے بہ پے ناکامیوں کی دلیل پہ استوار ہے۔ اسے مزید محاورے کی شاید ضرورت نہ پڑے۔ مرد اپنی فطرت میں طاقت کے حصول کے بعد ہمیشہ بے رحم ثابت ہوا۔ عورت کو تاریخ کے جس دور میں اقتدار ملا۔ اس کے ذاتی انتقام کے بر عکس زن زر زمین پہ قبضہ کی جنگیں بہت کم ہوئی ہیں۔ مرد اپنی تخریبی نیچر کی وجہ سے بھی سفاک رہا۔ عورت میں امومت اسے رحم سے وابستہ کر دیتی ہے۔ اس کی حس جمالیات کی نازکی اور نفاست بھی نوع انسان کے لیے نسبتاً امن کا باعث ہے۔ وہ ایسے درخت کی مانند ہے لوگ جس پہ پتھر پھینکتے ہیں اور وہ ان کے لیے پھل گراتا ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ دنیا کے فساد کا باعث ہمیشہ سے زن زر زمین رہی۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں اس سب فساد کا باعث ہوس ہے۔ جسے الہامی کلام میں، زیادہ سے زیادہ کی ہوس کی مار ڈالنے والی کیفیت کہا گیا، زر اور زمین فیصلہ کے اختیار سے محروم ایک وسیلہ محض ہیں۔ جب کہ زن عقل و فراست کی مالک ہستی کی حیثیت سے اپنی تقدیر اور تدبیر کا مظاہرہ کرنے کے مناسب مواقع نہ پا سکنے کی وجہ سے اس پہ احتجاج اور اس منصب کے حصول اور جدوجہد کا حق رکھتی ہے۔

مارکیز اور اس قبیل کے دیگر مفکرین کے دعاوی کی روشنی میں ان جھگڑوں میں اسے ایک فریق بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔

ہاں اس پہ جھگڑے اور اب صارفیت اور کارپوریٹ کلچر کی بنیاد اس کی ذات پہ ضرور کھڑی کی گئی ہے۔ تاریخی شعور اس زمانے کی نزاکتوں کی روشنی میں اس کا تقاضا کرتا ہے کہ تاریخی عمل کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھانے کے لیے ایک ایسے جھگڑے میں جس میں وہ باعث نزاع ہے اسے فیصلے کا حق دیا جائے اس سے پہلے کم از کم اس کے مقدمہ کو سنا جائے۔

لیکن ایسا بالکل نہیں ہو رہا۔ اسے تو اپنے بنیادی انسانی حقوق مانگنے پڑ رہے ہیں۔ دنیا اور تہذیب کے فیصلوں میں وہ اب بھی مفعول محض ہے۔ اس کی نسائیت زر اور زمین کے ساتھ منسلک ہے۔ یہ منسلک سچویشن ہی اس کے مقام کی حیثیت کا تعین ہے۔

اس پہ مزید دلیل کی ضرورت نہیں۔

نسائی قومیت کے مفکرین کی ہر دلیل کو رد کرتے ہوئے ہم اس ایک برہان قاطع کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ کہ اٹھائیس تہذیبوں کے ورثا نے انتقامی اور غلبے کی نفسیات کو ہی پروان چڑھایا اور ہر بار دنیا کو تباہی سے دوچار کیا۔ مہا بھارت سے جنگ عظیم دوم اور نائن الیون کے بعد کے منظر نامہ تک سارے قتل قابیل اور اس کے قبیلے کی منشا اور خواہشات کے مطابق ہوئے۔

خزینوں، زمینوں اور املاک کے لیے جنگوں کی حرص تو سمجھ میں آتی ہے لیکن فعال اور صاحب عقل و دانش لیکن کچھ صنفی مجبوریوں کی حامل مخلوق کے لیے حرص اور اسے ملکیت بنا لینے کی جنگوں کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ ہیلن سنجوگتا اور قلوپطرہ کے لیے جدل کو تاریخ اور قوانین فطرت کوئی اخلاقی اور عصری دلیل فراہم نہیں کر رہے۔ یہ زر اور زمین کے لیے کی گئی سر پھٹول کا حصہ ہے۔

مارکیز کے دعویٰ کی وسعت اور اہمیت اس دنیا میں سماجی اعتدال اور فطرت سے قریب تر نظام کے ناکام تجربوں کے ضمن میں ہے۔ مردانہ بالادستی دنیا میں زیادہ فساد اور بے اعتدالی کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب نسائی بالادستی کے سماج کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔

اس کا تعلق سماج میں دی گئی صنفی آزادیوں یا حقوق سے نہیں۔ کہ اس معاملے میں بلا تفریق صنف ایک سی صورتحال ہے۔ ترقی کے گرافوں پر سرکتی، سرسراتی لائنوں کے جال میں جکڑی ہوئی تخلیق کی وارث، تعمیر کے دشمن کو روکنے اور اپنی آزاد منشا یا شرکت اقتدار کے کسی فارمولے کے تحت دنیا کی بہتر تعمیر اور امن کی آشا میں اپنا کردار متعین کرا سکنے میں ناکام رہی، وہ اپنی محدود آزادی کے حصول کے خوابوں میں ہی مر کھپ گئی۔ اس کے ادراک اور تخلیقی رجحان کا اعتراف نہیں کیا جا سکا۔ اپنی ترقی کی راہ میں اس کا سرپرست و مجازی خدا بھی رکاوٹ رہا۔ لیکن وہ خود بھی اپنی صلاحیتوں اور اپنی حیثیت کے شایان تھیسس اور بیانیہ تشکیل نہیں دے سکی۔

یہی وجہ ہے وہ جو فطرت کی اصل وارث اور جس کے وجود سے حسن کائنات میں رنگ ہے۔ اس صدی میں بھی صارفیت کی تجوریاں بھرنے کا باعث، شرکت اقتدار اور منصب فیصلہ سے محروم۔ محض ایک خوبصورت پراڈکٹ، ایک اشتہاری ضرورت ایک خوش وقتی ہے

ثقافتی استعمار، اور ساہوکارانہ رویے انسانی وقار اور صنفی اختیار کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ انسان کی بحیثیت انسان تعظیم کسی امتیاز کے ساتھ ممکن نہیں۔ دنیا کو پرامن اور رہنے کے قابل بنانے کے لیے ضروری نہیں کہ اسے نسائی پروٹوکول کی چھتری مہیا کی جائے۔ تہذیب و ثقافت کی موجودہ وارث صنف بھی خود کو تبدیل کر سکتی ہے۔ وہ خود شناسی جو شخصیت کو یک سر بدل کے رکھ دیتی ہے۔ وہ قوموں کو بھی اسی طرح نیا پیکر اور نیا بیانیہ دے سکتی ہے۔ شرط بس اتنی کہ یہ صنف کرخت کچھ کچھ صنف نازک کی طرح بھی سوچے، پدرانہ تلخ مزاجی کے ساتھ کچھ ممتا کی سی شفقت بھی اپنے مزاج کا حصہ بنائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments