جوتا کہانی


میں ایک جوتا ہوں، میری کہانی تھوڑی طویل پر دلچسپ ہے۔ آج میں اپنی کہانی اپنے پیارے وطن پاکستان میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ جو عزت اور شہرت مجھے یہاں نصیب ہوئی ہے شاید ہی کہیں کسی کو اتنی عزت ملی ہو۔

پاکستان میں ہر عمر میں انسان کا جوتے سے ایک گہرا تعلق بنا رہا ہے۔ بچپن میں ماں باپ، استاد تعلیم اور تربیت کے لیے جہاں اور بہت سے جدید طریقے استعمال کرتے ہیں وہاں مکمل روایتی طریقہ جوتے کا موثر استعمال بھی صدیوں سے کرتے آرہے ہیں۔ اور وہ اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ اگر جوتا ساتھ رکھ کر تعلیم اور تربیت کی جائے اس کا اثر تا دم مرگ رہتا ہے۔ ورنہ انسان جلد بھول جاتا ہے۔

پاکستان میں الحمدللہ تعلیم اور تربیت مکمل کرنے کے بعد جب انسان پریکٹیکل یعنی عملی زندگی کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو جتنے جوتے اسے چٹخانے پڑتے ہیں اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جوتا زندگی کا آگ ہوا اور پانی کے بعد چوتھا اہم عنصر ضرور ہے۔ اور یہی چٹخے ہوئے جوتے زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں۔

جب عملی زندگی میں انسان ایک قدم اور آگے بڑھاتا ہے تو اس کی زندگی میں شادی کا اہم موڑ آ جاتا ہے، یہ موڑ کاٹتے وقت ہی اس کی جوتا چھپائی ہو جاتی ہے۔ اور یہ جوتا چھپائی شادی کے ساتھ ساتھ جوتا لگائی، جوتا دکھائی، جوتا سنگھائی بنتا رہتا ہے۔ یہی آگے چل کر جوتا کھلائی بھی بنتا رہتا ہے۔

جوتا پاکستان میں اپنی اہمیت بھی بدلتا رہتا ہے مثال کے طور پر اس کی اہمیت کم کرنی ہو تو بول دیں میں اس کو پیر کے جوتے کے برابر بھی نہیں سمجھتا تو اس کی توقیر کم ہو جائے گی لیکن اس کی اہمیت بڑھانا ہو یا یوں کہیے کہ اس کی اہمیت لمبانی ہو تو صرف ”لونگ بوٹ“ کہہ دیں پھر اس کا جادو دیکھیں لونگ بوٹ کے سامنے گونگا فر فر بولنے، بہرا سننے اور اندھا دیکھنے لگتا ہے۔ لونگ بوٹ ہوں اور ہم سب اس کی تعظیم میں سیدھے نہ ہوں یہ ممکن ہی نہیں۔

ویسے جوتے کی اہمیت مہنگے برینڈ سے اور مساجد میں چھپا کر رکھنے سے بھی واضح ہو جاتی ہے، نماز میں بھی خیال یہی رہتا ہے کہ واپسی پر جوتا ہو گا یہ برہنہ پا مارچ کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں جوتا تو ٹاک شو تک میں شرکت کر کے اپنی اہمیت منوا چکا ہے۔

یہاں ویسے ہمارے کافی عظیم سیاست دانوں کو بھی بہت سے دل جلوں نے نشانہ تاک تاک کر جوتے پھنک کر مارے ہیں اور یہ سلسلہ کبھی بھی دوبارہ شروع ہو سکتا ہے اس لیے ہمیں تو دیجے اجازت۔ ابھی اس طویل داستان کو یہاں بریک لگاتے ہیں ورنہ جوتوں کا ہار کوئی ہمیں ہی نہ پہنا جائے۔

سلامت رہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments