الوداع عثمان بزدار


وقت اتنی تیزی سے بدلے گا اس کا اندازہ ہی نہ تھا، عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے قریب ہے، اپوزیشن مکمل طور پر عمران خان کو چاروں شانے چت کرچکی ہے، وزیراعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کی فاتحہ پڑھ لی گئی ہے، ابھی دو روز باقی ہے، یہ کہہ سکتے ہیں کہ دو دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات اور یہ رات معلوم نہیں کتنی طویل ہوگی

عمران حکومت کے ساڑھے تین سالوں پر اگر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو اس میں اگر کسی کا بھلا ہوا ہے تو عثمان بزدار ہیں جنہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلی پلیٹ میں رکھ کر دی گئی، اسی وزارت اعلی کے خواب کی تعبیر کے لئے چودھری پرویز الہی نے شریف برادران کا دہائیوں کا ساتھ چھوڑ کر مشرف سے ہاتھ ملا لیا اور پنجاب کی پگ اپنے سر سجا کر اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دیدیا، اب پھر چودھری پرویز الہی نظام سقہ بننے کے لئے چند مہینوں کی پنجاب کی وزارت اعلی کی کرسی سنبھالنے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں

پنجاب کا وزیراعلی بننے کا خواب لئے کئی سیاستدان مٹی تلے سو چکے ہیں، پنجاب کی وزارت اعلی کا مطلب آدھے پاکستان کی حکومت ہے، ہر سیاسی جماعت وفاق میں حکومت بنانے سے پہلے پنجاب میں اپنے پنجے گاڑتی ہے تاکہ وہ وفاق کو مضبوط انداز میں چلا سکے، ہمارے عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلی ایسے ہی ملی جیسے غریب لکڑ ہارے کو جنگل سے اچانک سونے کی بھری ہوئی دیگ مل جاتی ہے اور وہ راتوں رات امیر ترین بن جاتا ہے

عثمان بزدار کی وزارت اعلی کے ساڑھے تین سالوں میں ان پر حد سے زیادہ تنقید ہوئی، سب سے پہلے میڈیا نے ہلکے پھلکے انداز میں تنقید شروع کی کہ بول مٹی دیا باویا۔ مگر عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ابھی سیکھ رہا ہوں، پھر رفتہ رفتہ اپوزیشن کو بھی تشویش لاحق ہو گئی کہ کیا پنجاب میں کوئی وزیراعلی نام کی کوئی شے ہے بھی کہ نہیں، اس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے میمز بننے لگے، یہ سب کچھ کرنے کا جواز عثمان بزدار نے خود فراہم کیا

مثلاً، اماں اے عثمان بزدار ہے، وزیراعلی پنجاب، اماں بیچاری بھولی بھالی صحرا کی رہنے والی، اس کو کیا معلوم وزیراعلی کس بلا کا نام ہے، اماں کو سمجھانے کے لئے چودھری سمیع اللہ نے کہا کہ اماں جیوے شہباز شریف لگا ہی وی نا، اوئے یہ شہباز شریف لگے ہن۔ پھر یہ کورونا کاٹتا کیسے، ہیڈ فون لگانے والے سے پوچھتے ہیں یہاں سے بھی آواز آئے گی، باقی کچھ ذاتی اور ایکسکلوسیو معلومات ہیں جن کو یہاں لکھنا مناسب نہیں سمجھتا ورنہ میرے دوست کی عزت میں مزید اضافہ ہو جائے گا

یہ وہ امیج تھا جو حکومتی محکمے نے عوام کے سامنے عثمان بزدار کا بنایا، حیران کن بات یہ ہے کہ یہ امیج آخری دم تک بہت مہارت سے برقرار رکھا گیا، ایک گھناؤنی سازش کے تحت عثمان بزدار کو میڈیا فرینڈلی بنانے کے بجائے میڈیا سے دور رکھا گیا، سیکرٹری اطلاعات پنجاب و دیگر بیوروکریسی نے وزیراعلی کو اپنے چہیتے صحافیوں بلکہ ”پیشہ ور“ صحافیوں تک ہی محدود رکھا، پیشہ ور صحافیوں کو ہی عثمان بزدار سے ملوایا جاتا تھا کہ یہ بہت بڑے صحافی ہیں، ان کی خبروں سے حکومتیں الٹ جاتی ہیں اور ان کا کالم عوام بہت شوق سے پڑھتے ہیں جس سے وزیراعلی کا امیج بہت اچھا بن رہا ہے

پیشہ ور صحافیوں کی برادری میں جو عزت ہے وہ صحافی برادری اچھی طرح سے جانتی ہے، عثمان بزدار کا بطور وزیراعلی اپنے اخبار کے سنڈے میگزین کے لئے دو گھنٹے کا باقاعدہ انٹرویو کرنے کا اعزاز میرے حصہ میں آیا، اس کی وجہ زکریا یونیورسٹی کا تعلق تھا جس کی وجہ سے ان کے پی آر او کی کوششوں سے عثمان بزدار انٹرویو دینے پر رضا مند ہو گئے، انٹرویو میں میرے ساتھ اخبار کے میگزین ایڈیٹر محی الدین اور سینئر صحافی رانا نسیم بھی تھے

انٹرویو کے دوران سوال و جواب شروع ہوئے تو میرے کولیگ حیرت سے مجھے دیکھیں کہ ہر سوال کا جواب عثمان بزدار کی فنگر ٹپس پر ہے حتی کہ فگر بھی فر فر بتائے، کوئی پرچی کا سہارا نہیں لیا، کسی سے پوچھا نہیں، انٹرویو کے بعد واپسی پر گاڑی میں محی الدین نے مجھ سے پوچھا، آپ کا دوست تو بہت اچھا بولتا پھر ٹی وی پر نہ آنے کی وجہ کیا ہے؟

محی الدین نے بتایا کہ پرویز الہی جب وزیراعلی تھے تو ان کا بھی انٹرویو کیا تھا، وہ بہت اچھا بولے تھے، عثمان بزدار نے بھی بہت اچھی باتیں کیں، انہوں نے مزید بتایا کہ جب انٹرویو چھپ گیا تو اتوار کو دوپہر بارہ بجے موبائل پر فون آیا اور کہا محی الدین صاحب، چودھری پرویز الہی بول ریا آں، محی الدین نے کہا کہ میں حیران ہو گیا کہ وزیراعلی اپنے موبائل فون سے خود کال کر رہا ہے، کوئی پروٹوکول نہیں کیونکہ عموماً پی ایس وغیرہ پہلے کال کرتے ہیں پھر صاحب سے بات کراتے ہیں

محی الدین نے کہا کہ خیر میں نے آواز پہچان لی اور کہا جی وعلیکم سلام سی ایم صاحب، تو پرویز الہی نے بہت شکریہ ادا کیا کہ آپ نے بہت اچھا انٹرویو لکھا ہے اور خوشی اس بات کی ہے کہ آپ نے کوئی بات توڑ مروڑ کر پیش نہیں کی، جو کہا اس کو اسی طرح بیان کیا، جس پر میں نے محی الدین سے کہا کہ سرکار۔ عثمان بزدار سے یہ توقع نہ رکھنا، اب اسے خواب ہی سمجھیں کہ ہم نے عثمان بزدار کا انٹرویو کیا ہے اور پھر یہی ہوا کہ عثمان بزدار سے تو خیر توقع ہی نہیں تھی مگر ڈی جی پی آر اور سیکرٹری اطلاعات پنجاب کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ ہمارے گروپ ایڈیٹر کا شکریہ ادا کرتے کیونکہ یہ ایک معمول کی رسمی بات ہوتی ہے

عثمان بزدار بہت خدا ترس انسان ہیں، تونسہ کے ایک کلرک کے تبادلے کے لئے خاتون ایڈیشنل سیکرٹری کو براہ راست فون کر دیا اور گزارش کی کہ اگر ہو سکے تو اس غریب کلرک کا تبادلہ کر دیں، اس فون کال کے بعد بیوروکریسی جان گئی کہ بھولا ہے اور پھر بیوروکریسی ان کو گولیاں دینے لگی، ان کی کابینہ کے ارکان کا یہ عالم تھا کہ ایک بار وزیراعلی سے کام پڑ گیا، انہوں نے اپنے پی ایس او کیپٹن علی کو بلایا اور کہا کہ فلانے وزیر کو فون کریں، ان کو میرا بتائیں اور کہیں کہ ان کا کام فوری طور پر کریں، علی نے متعلقہ وزیر کو اسی وقت میرے سامنے فون کر دیا اور بہت اچھے انداز میں کہا کہ سی ایم صاحب کے ذاتی دوست ہیں اور سی ایم صاحب نے ہدایت کی ہے کہ آپ کو فون پر بتاؤں

اگلے روز لمبی لمبی مونچھوں والے وزیر سے ملا، وزیر صاحب، غصہ کر گئے کہ آپ سی ایم کے پاس کیوں گئے تھے، بمشکل جان چھڑا کر نکلنا پڑا، ذرا تصور کریں، عثمان بزدار کی جگہ شہباز شریف وزیراعلی ہوتے اور وہ اس طرح اپنے پی ایس او کو ہدایت دیتے تو وزیر کا ردعمل کیا ہونا تھا، یہ فرق ہے، عثمان بزدار اور شہباز شریف میں

باتیں بہت سی ہیں، خود وزیراعظم نے بھی متعدد مرتبہ میڈیا پر کہا کہ وسیم اکرم پلس بہت اچھا کام کر رہے ہیں مگر میڈیا پر ان کے کام کی تشہیر نہیں ہوتی، ان کو اس پر خصوصی توجہ دینا چاہیے، افسوس سائیں نے اس کو نظر انداز کیا، اب کھیل ختم ہو چکا ہے، عثمان بزدار ایوان وزیراعلی رخصت ہوچکے ہیں، پرویز الہی پنجاب کی پگ سر پر سجانے کے لئے بے تاب ہیں

یہ افسوس رہے گا کہ زکریا یونیورسٹی کے دوست کو پنجاب کے سب سے بڑے عہدے پر ایک ناکام، نا اہل اور نالائق کے طور پر ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا، اس کے ساتھ ساتھ مشکل حالات میں عثمان بزدار نے اپنے مہربان اور محسن عمران خان جنہوں نے انہیں یہ عزت بخشی، کو بحران سے نکالنے کے لئے اپنی وزارت اعلی ان کے قدموں میں رکھ دی کہ اگر میری قربانی سے پارٹی اور حکومت بچ سکتی ہے تو میں جانے کو تیار ہوں

اس بات کا فیصلہ تاریخ کرے گی کہ عثمان بزدار نے پنجاب کے ہر ضلع میں بہت سے ترقیاتی منصوبے بنائے تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے اور انہوں نے اپنے محسن سے اس وقت وفا کی جب اس کے اتحادی حالات دیکھ کر ڈوبتی کشتی سے چھلانگیں لگا رہے تھے اور ایک ایک کر کے اتحادیوں کی اکثریت ان کا ساتھ چھوڑ رہے تھے، اس مصیبت کی گھڑی میں عثمان بزدار اپنے محسن کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہا یا پھر عثمان بزدار ایک ناکام اور کمزور وزیراعلی پنجاب تھا، وقت گزر گیا اور عثمان بزدار کا نام تاریخ میں رہے گا۔ الوداع عثمان بزدار


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments