منکے کی تلاش


ہر کسی کی زندگی میں بہت سے ایسے کردار ہوتے ہیں جن سے ہم دل کی بات کبھی زبانی یا کبھی لکھ کر کرتے ہیں۔ ایسی بات جو ہر کسی سے نہیں کی جا سکتی۔ پروفیسر بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہے۔ وہ بہت کم اور مختصر جواب دیتے ہیں مگر بات سن ضرور لیتے ہیں۔ بات کہی نہ گئی، بات سنی نہ گئی یہی تو عام انسانوں کا المیہ ہے۔ ہم نے انہیں بہت سے خطوط لکھے ہیں ان میں سے ایک حاضر ہے۔

ڈیئر پروفیسر، سلام

کسی ایسے شخص سے جو زندگی کے تمام ذائقے چکھ چکا ہو یہ کہتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے کہ زندگی کی اونچی نیچی پگڈنڈیوں پہ چلتے چلتے جو سبق پڑھنے کو ملتے ہیں وہ کتابوں میں عموماً لکھے نہیں ہوتے۔ ہوں بھی کیسے کہ زندگی سب کو مختلف ہی ملتی ہے۔ ہر کوئی زندگی کو اپنے حساب سے دیکھتا ہے اپنا تجربہ اپنا مشاہدہ بیان کرتا ہے یہ سائنس کا علم تو ہے نہیں کہ طے شدہ کلیے اور فارمولے کے ذریعے ایکویژن حل کر لی جائے

ہر آنکھ ایک سا منظر نہیں دیکھ پاتی کیونکہ ہماری کھڑکیوں کا سائز اور محل وقوع مختلف ہوتا ہے۔ اگر کھڑکی اتنی چھوٹی ہو کہ صرف مٹھی بھر آسمان ہی دکھائے تو آسمان کی وسعت کا اندازہ کیسے ممکن ہے؟

ان سلاخوں میں دم گھٹتا ہے اس نے بس اتنا کہا اور نکل پڑی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کون ہے؟ تو جناب من وہ کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ کردار کو نام دینا ضروری تو نہیں ہے۔ ایسے بہت سے کردار ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ عام لوگوں کے نام یاد نہیں رکھے جاتے۔ ان کے تو چہرے بھی وقت کی گرد میں چھپ جاتے ہیں یقین نہ آئے تو تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ یوں سمجھ لیں کہ وہ بھی ایک گمنام عورت ہے۔ ہو سکتا ہے نام کے بغیر کردار سے ریلیٹ کرنا آپ کے لیے مشکل ہو تو آسانی کے لیے اسے سبیکا کا نام دیا جا سکتا ہے۔

فطرت کا تجسس انسان کو آسمان کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے سر کھڑکی کے فریم سے باہر نکالنے پر مجبور کرتا ہے۔ سلاخیں جڑی کھڑکی سے باہر نکالنے کی کوشش میں سر بری طرح لہولہان ہوتا ہے۔ ہم نے کہا، دیکھو تم اک قیدی پرندہ ہو تمہارے بال و پر اتنے مضبوط نہیں کہ اونچا اڑ سکو!

پر برسوں ذہن کے زندان میں بند رہنے والے قیدی کہاں کسی کی بات سنتے ہیں۔ اس نے بھی نہیں سنی

ہم سے یہ بھی نہیں کہا گیا کہ سلاخوں کو ٹیڑھا میڑھا کر کے سر باہر نکال لینے میں اکثریت ناکام رہتی ہے۔ دعویٰ ہر کوئی کرتا ہے کہ اس نے تحیر کی دنیا دیکھی ہے پر ایسا ہوتا نہیں۔ وقت گزاری کو کہانیاں سننا یا کہانیاں بننا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ گزرے زمانے میں قصہ گو دربار کا حصہ ہوتے تھے۔ جو حکمرانوں کا دل بہلاتے تھے۔ کسی نہ کسی شکل میں یہ روایت اب بھی باقی ہے۔ شہرزاد کا کردار ختم نہیں ہوا۔ ان دعوؤں پہ مت جانا یہاں جھوٹی سچی کہانیاں گھڑنے میں دیر نہیں لگتی۔

جب ایک سادہ دل انسان اپنی آنکھ سے کام لینے کے بجائے دوسروں کی آنکھ سے دیکھنا شروع کردے وہیں سے خرابی کی بنیاد پڑتی ہے اور اس کا پتہ بہت دیر سے چلتا ہے۔ اور اس کہانی میں بھی ایسا ہی ہوا

پروفیسر سبیکا جو بظاہر تیز و طرار لگتی ہے اتنی ہے نہیں۔ حلیہ اکثر دھوکا دے جاتا ہے۔ ہر کہانی پر من و عن یقین کرنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ لاکھ بار سمجھایا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا اتنی بدل چکی ہے تم اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتیں۔ ایک سے ایک بڑا شاطر جال پھیلائے بیٹھا ہے۔ یہاں تو اچھے اچھے ہار جاتے ہیں تم تو اناڑی ہو۔ پر ایسے انسان کو سمجھانا دنیا کا مشکل ترین کام ہے جو سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہے۔

ہم سے کہنے لگی تمہیں شک کی بیماری ہے اور مجھے شک برداشت نہیں۔ میں اس آگ میں برسوں جلی ہوں اور اس کی کسک اب تک محسوس ہوتی ہے، میرا رستہ نہیں روکو

اس مکالمے کے بعد کوئی کیا کہے؟ سو میں چپ رہی۔

بحیثیت پروفیسر آپ با آسانی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ دنیا بذات خود ایک بہت بڑی یونیورسٹی ہے اس میں داخلہ تو آسانی سے مل جاتا ہے مگر کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ یہاں زندگی ہی استاد ہے جو سارے مضامین پڑھاتی ہے۔ اس کا موڈ ہر لحظہ بدلتا ہے پل میں تولا پل میں ماشہ۔ امتحان کی تیاری مکمل ہو تو بھی، جب چاہتی ہے یا تو سلیبس بدل دیتی ہے یا پھر پرچے میں سارے سوال آؤٹ آف سلیبس آتے ہیں۔ پھر نئے سرے سے تیاری کرنی پڑتی ہے۔ یہ سائیکل اسی طرح سے چلتا رہتا ہے۔

سبیکا سے ان خدشات کا اظہار کرنے کو جو ہمت درکار تھی وہ ہم میں نہیں تھی۔ دلوں میں رب بستا ہے۔ بلھے شاہ جن کا مرشد ہو ان سے کسی کا دل توڑا نہیں جاتا۔ یہیں تو ہم جیسے لوگ مار کھا جاتے ہیں۔

وہ سمجھتی تھی کہ ترپ کا پتا اس کے ہاتھ ہے۔ اس سے بڑی نادانی اور کیا ہو گی؟ آدھی دنیا گھومنے کے باوجود یہ کمبخت ترپ کا پتا کبھی ہمارے ہاتھ ہی نہیں لگا ورنہ شاید بازی پلٹ جاتی۔ ویسے بھی ہارے ہوئے جواری کا مشورہ کون مانتا ہے؟ سو اس نے بھی نہیں مانا۔

وقت ہم سب کے اندر زہر بھر دیتا ہے۔ اسے اپنے اندر کا زہر نکالنے کے لیے سانپ کا منکا درکار تھا۔ اس کا تذکرہ تو بہت سنا ہے پر کبھی دیکھا نہیں۔ سنا ہے جوگیوں کے پاس ہوتا ہے۔ ہمارا ان خرافات پہ یقین نہیں پر کسی کے اندھے یقین کو توڑنا کتنا کٹھن ہے اس کا اندازہ شاید ہمیں بھی نہیں تھا۔

من کی کھڑکی بھی عجیب ہوتی ہے جو اکثر انجانے جہانوں میں کھلتی ہے اور انسان بند آنکھوں کے ذریعے وہ تمام مناظر دیکھ لیتا ہے جو آنکھ دیکھنا چاہتی ہے۔ جو سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے۔ سبیکا کے من کی بند کھڑکی کب کھلی ہمیں علم نہیں۔ تنہائی بہت سی ایسی کھڑکیوں کو کھول دیتی ہے جن کا کھلنا خسارے کا باعث ہوتا ہے۔ اپنے نا ختم ہونے والے گمبھیر مسائل میں گھرے مڈل کلاس کے لوگ اکثر ایسی ہی کھڑکیوں میں بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ کھڑکیاں حقیقت کی دنیا سے دور لے جاتی ہیں۔ یہی سب سے خطرناک کھڑکی ہے۔ اس سے باہر جھانکتا انسان کسی بھی گہری کھائی میں گر سکتا ہے۔ ہمیں اسی بات کا ڈر تھا کہیں وہ کسی ایسی کھائی میں نہ گر جائے کہ نکالنا مشکل ہو۔

ہمارے شاعر اور ادیب نسل در نسل خوابوں کو منتقل کر رہے ہیں اور ہم مسلسل ایک ہی طرح کے خواب دیکھے چلے جا رہے ہیں۔ اب تو آنکھیں بھی دکھنے لگی ہیں۔ خواب دیکھنا سکھانے والے یہ نہیں بتاتے کہ جب خواب ٹوٹتا ہے تو انسان پہ کیا گزرتی ہے؟ وہ اندر ہی اندر کتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ پر میں اسے یہ بات کہہ نہیں پائی۔

ہماری جن بڑے آدمیوں تک پہنچ تھی وہ سب گزر چکے۔ ان کا لکھا پڑھتے پڑھتے بالوں میں چاندی اتر آئی پر اس سحر کا سراغ نہیں ملا جس کا تذکرہ ہر کسی نے کیا۔ ان سے ملاقات کا اب کوئی وسیلہ نہیں ہے ورنہ پوچھتے کہ شب انتظار کتنی لمبی ہے جو گزر کے نہیں دیتی؟ آج کی نسل بھی بڑے ناموں پہ جاتی ہے اور خرابوں میں وفا کے موتی تلاش کرتی ہے یہ جانے بنا کہ وہ سیپیاں اب کسی سمندر میں نہیں ملتیں جو ان موتیوں کی پرداخت کرتی تھیں۔ راشد تو ہماری پیدائش سے پہلے گزر گئے ورنہ پوچھتے کہ یہ تو اہل کتاب اور اہل مشین کا دور دورہ ہے وہ سادہ دل کہاں ہیں؟ اب اجل کس سے ملے؟

مگر تیسرے درجے کے لوگوں کی رسائی کسی تک نہیں ہوتی۔ وہ کسی عوامی تقریب میں واہ واہ کی صدائیں لگا کر ہی خوش ہو سکتے ہیں۔ نگاہ غلط ڈالنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ در بھی کھلے گا۔ اس دنیا کا دستور ہی ایسا ہی ہے کہ بڑے لوگ تو دور کنار دوسرے درجے کے لوگ بھی کسی ہما شما کو منہ نہیں لگاتے حیثیت دیکھ کر بات کرتے ہیں۔

زندگی کے سفر کی لمبائی چار میل ہے مگر کوئی آدھا میل چلتا ہے کوئی پونا، حد سے حد سوا میل، ڈھائی میل یا ساڑھے تین میل۔ چار میل کبھی مکمل نہیں ہوتے۔ دو سمندروں کے بیچ وہ کتنے میل چلی ہے میں اس یہ نہیں پوچھوں گی کہ اس وقت وہ ریٹائرڈ ہرٹ ہے۔ وہ شاعر جس نے بارہواں کھلاڑی نامی مشہور نظم لکھی تھی کاش کوئی اسے بتائے کہ اس زمانے میں وہ بارہواں کھلاڑی جسے وہ ہووٹ کرتا رہتا تھا وہی میرٹ پہ ہوتا ہے باقی سب سفارشی ہیں۔

وہ کھلی کتاب جیسی ہے ایسی کتابیں پڑھنا مشکل نہیں ہوتا۔ چہرے کی تھکن کہہ رہی ہے کہ جس منکے کی تلاش میں گئی تھی ناکام لوٹی ہے۔ ایسا منکہ ہے ہی نہیں جو رگوں میں پھیلتے زہر کو چوس لے۔ انسان اپنے اندر سے کچھ زہر نکال سکتا ہے مگر مکمل طور پر اس سے نجات پانا ناممکن ہے کچھ اثرات ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ آپ ہی بتائیے کہ کسی تھکے ہوئے انسان کو شرمندہ کرنے کی بنتی ہے؟ اگلے خط میں کوئی اور کہانی لکھوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments