کھیل ہو، سیاست ہو یا جنگ، میدان سے بھاگنا بزدلی ہے


پچھلے سال ماہ ستمبر کے وسط میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کئی سال بعد پاکستان کے دورے پر پہنچی تھی۔ پاکستان نے تمام کھلاڑیوں کو فل پروف سکیورٹی دی تھی۔ نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں کو ہر کوئی سر آنکھوں پر بٹھا رہا تھا۔ کرکٹ شائقین خوش تھے کہ پاکستان کے میدان پھر آباد ہوں گے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلے متوقع تھے۔ پی سی بی کے چیئرمین رمیض راجہ بہت متحرک اور پرجوش تھے۔ وزیراعظم بھی نیوزی لینڈ کے اس دورے کو اپنی حکومت کی کامیابی قرار دے رہے تھے۔

سترہ ستمبر کو راولپنڈی اسٹیڈیم میں دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ایک روزہ میچ کھیلا جانا تھا۔ اس سے ایک دن قبل دونوں ٹیموں نے سخت سکیورٹی میں نیٹ پریکٹس کی۔ میچ والے دن تماشائی اسٹیڈیم پہنچنا شروع ہوچکے تھے مگر اچانک اطلاع ملی کہ نیوزی لینڈ نے سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ یہ سن کر حکومت پاکستان، پی سی بی اور تمام آفیشل سکتے میں آ گئے۔ وزیراعظم نے فوراً ہارٹ لائن پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے رابطہ قائم کیا اور انہیں دورہ منسوخ نہ کرنے کی درخواست کی۔ مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اگلے دن نیوزی لینڈ کی ٹیم اپنے ملک روانہ ہو گئی۔

ادھر پاکستانی وزیراعظم سمیت تمام وزرا، پی سی بی اور کرکٹ شائقین نیوزی لینڈ کی ٹیم اور حکومت پر برس پڑے۔ انہیں میدان چھوڑ کر بھاگنے کے طعنے دیے گئے۔ انہیں ڈرپوک، بزدل اور پتہ نہیں کن کن ناموں سے یاد کیا جانے لگا۔ میمز کی بھر مار ہو رہی تھی۔ دنیا کا شاید ہی کوئی آدمی ہو جس نے نیوزی لینڈ کے دورے کی منسوخی پر اسے بے نقط نہ سنائی ہوں۔ جب تک کرکٹ کا کھیل باقی ہے، نیوزی لینڈ کو اس حوالے سے معتوب کیا جاتا رہے گا۔

آج پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا جس نے نیوزی لینڈ کے دورے کی منسوخی کی یاد تازہ کردی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد مسلسل یہ راگ الاپ رہے تھے کہ وہ ایک بڑا سرپرائز دیں گے۔ اس حوالے سے وہ مسلسل اپنا موٴقف بدلتے رہے۔ پہلے کہا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لا ہی نہیں سکتی۔ جب تحریک آ گئی تو کہا کہ میں تو دعا کر رہا تھا کہ اپوزیشن تحریک لائے تاکہ میں ان کی سیاست دفن کروں۔

پھر فرمایا کہ اپوزیشن نمبرز پورے نہیں کر سکتی۔ جب اپنے لوگ چھوڑ کر جانے لگے تو پہلے ان کی منتیں ترلے کیے، پھر ان پر بکاوٴ مال کا الزام لگایا اور آخر میں انہیں دوبارہ پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دے دی۔ جب تمام حربے ناکام ہو گئے اور ووٹنگ کا دن آن پہنچا تو عجیب ”سرپرائز“ دیکھنے کو ملا۔ یعنی آخری گیند تک مقابلہ کرنے کی بڑھکیں مارنے والا کپتان یقینی شکست دیکھ کر پچ اکھاڑ، بال، بیٹ اور وکٹیں لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے چاہنے والے کپتان کے اس راہ فرار کو عظیم فتح سے تعبیر کرنے لگے۔ نامور ماہرین قانون کے مطابق وزیراعظم خود بھی آئین شکنی مرتکب ہوئے اور صدر، فواد چودھری اور ڈپٹی سپیکر کو بھی آئین شکنی پر مجبور کیا۔ بعد میں صدر نے ان کی تجویز پر قومی اسمبلی بھی توڑ دی۔

قومی اسمبلی کی اس کارروائی پر سپریم کورٹ نے آج ہی سو موٹو نوٹس لے لیا۔ اب سپریم کورٹ کا لارجر بینچ اس پر سماعت کرے گا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ایک شخص کی انا پاکستان اور آئین پاکستان سے بھی بڑا ہے۔ جس ”خطری“ خط کی بنیاد پر عمران نیازی نے سارا ڈراما کیا شنید ہے کہ وہ خط ہی فیک ہے۔

انیس اکہتر میں بھی ہمارے ایک جنرل (اتفاق سے وہ بھی نیازی تھے ) نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں غنیم کے سامنے ذلت آمیز طریقے سے ہتھیار ڈالے تھے۔ وہ بھی پہلے تو بہت بڑھکیں لگا رہے تھے مگر وقت آنے پر ہتھیار ڈال کر میدان جنگ سے بھاگ آئے تھے۔ دنیا کی جنگی تاریخ میں نیازی کی پسپائی ذلت و رسوائی کا استعارہ بن چکی ہے اور اب سیاسی تاریخ میں عمران نیازی کی تازہ پسپائی عرف عام میں ”سرپرائز“ ضرب المثل بن کر زندہ رہے گی۔ جنگ سیاسی ہو، عسکری ہو، عدالتی ہو یا کھیل کی ہو میدان سے بھاگنے والا ہمیشہ رسوا ہوتا ہے۔ ایسا شخص بہادر نہیں بزدل سمجھا جاتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments