روداد سفر حصہ 14


چائنا میں حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق کل 56 نسلی گروہ آباد ہیں۔

مسلمانوں کی بھی بہت بڑی تعداد آباد ہے، ایک اندازے کے مطابق چائنا میں تقریباً اڑھائی کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ تاہم چائنا حکومت کی جانب سے مذہب کے بجائے نسلی بنیادوں پر مردم شماری کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے جو مسلمان وہاں آباد ہیں ان میں ایغور، تاجک، ازبک، قازق، سالار، منگول، تنگن اور ہوئی ( Hui ) شامل ہیں۔ کچھ اور بھی ہیں جو زبان کے لحاظ سے ان سے مختلف ہیں لیکن انہیں بھی ( Hui ) ہی کہا جاتا ہے۔ جیسے ہائی نان ( Hainan ) جزیرے میں دس ہزار مسلمان آباد ہیں اور یہ اپنی ایک الگ زبان بولتے ہیں اور وہ خود کو عرب تاجروں کی اولاد کہتے ہیں۔

جو مسلمان برما اور ویتنام کے قریب آباد ہیں وہ بھی اپنا رشتہ یا تعلق ملائشیا سے جوڑتے ہیں، زبان اور رسوم و رواج میں یہ لوگ دیگر لوگوں سے کچھ مختلف ہیں لیکن حکومت انہیں بھی ہوئی ( Hui ) ہی کہتی ہے۔ اس کے علاوہ تبتی اور منگول مسلمان بھی ہیں وہ بھی ہوئی ( Hui ) ہیں گنے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تبتی مسلمان تبت پر چائنا کے قبضے کے بعد انڈیا کی نیشنلٹی لے کر وہاں چلے گئے۔ انڈیا نے انہیں کشمیری ڈیکلیئر کیا۔

اس کے علاوہ چائنا کے نان مسلم میں سب سے بڑا گروپ ہان ( Han ) کہلاتا ہے، لیکن یہ کس بنیاد پر ایک گروپ یا نسل ہے یہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔ ہر صوبے کے رسم و رواج اور زبان دوسرے صوبے سے بالکل مختلف ہے۔ یہ سب ایک دوسرے سے تفریق بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر برتری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جو لوگ ایک لمبے عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں اور ایک جیسی تہذیب و ثقافت اور تاریخ رکھتے ہیں وہ ہان ( Han ) کہلاتے ہیں، جو تاریخ میں اس خطے میں اکٹھے رہے بھی اور ایک دوسرے سے لڑے بھی۔

ایک بہت بڑا گروپ ( Guangdong ) گونگ ڈونگ صوبے میں ہے یہ لوگ جو زبان بولتے ہیں وہ ( Cantonese ) کینٹونیز کہلاتی ہے۔ ان کے رسم و رواج دوسروں سے بہت مختلف ہیں۔ حکومت کی سخت پالیسی کہ آپ اپنے قریبی رشتے داروں میں شادی نہیں کر سکتے بلکہ دو تین نسل پیچھے کے رشتے دار بھی آپس میں شادی نہیں کر سکتے یہ پالیسی شاید لوگوں کو آپس میں مکس کرنے کے لیے ہے۔ یا یوں سمجھ لیں ( Han ) ہان چائنیز بنانے کا عمل ہے۔ لوگ رشتے کے لیے اپنے علاقے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔

لیکن اب لوگوں کا اپنے علاقوں سے نکل کر صنعتی شہروں کی طرف رخ کرنے سے دوسرے علاقوں کے لوگوں سے بھی تعلق بن رہا ہے جو اس سے پہلے 1980 تک شاید بہت ہی مشکل تھا۔ کیونکہ اس وقت تک اجتماعی زراعت ( collective farming ) رائج تھی اور گاؤں کے نمبردار کی اجازت کے بغیر آپ اپنے گاؤں سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔ جاتے بھی کیسے حکومت کی طرف سے ملتا ہی اتنا جو مشکل سے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھتا۔

چھوٹے گروہ جو اپنی الگ شناخت یا زبان رکھتے ہیں وہ آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ( Helongjaing ) ہیلونگ جانگ صوبے میں کورین کی بھی ہے جو کوریا کی جنگ کے دوران یہاں آئے اور یہیں آباد ہو گئے۔

ایک مرتبہ مجھے ( Kunming ) ٹرین سٹیشن پر ایک عورت ملی۔ وہ سمجھی شاید میں ایغور ہوں اس نے مجھے سے سلام دعا کی، میں نے اسے بتایا کہ میں پاکستانی ہوں۔ اس نے بتایا کہ وہ ہلونگ جانگ ( Helongjaing ) صوبے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے آباء و اجداد کسی دور میں رشیاء سے یہاں منتقل ہوئے تھے۔ ان کی اپنی الگ زبان ہے اور وہ اپنی بیٹی سے جو یہاں کسی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے، ملنے آئی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہاری بیٹی تمہاری اپنی زبان بولتی ہے؟ اس نے کہا : نہیں بولتی، لیکن سمجھ لیتی ہے۔ میں نے اس سے کہا پھر تو یہ زبان آگے منتقل نہیں ہوگی۔ اس بات نے اسے سوچ میں مبتلا کر دیا۔ اس کی بیٹی یہ زبان نہیں بول سکتی اس لیے کہ اس کا والد اس نسل سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔

بعض علاقوں میں یہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ بلکہ بعض علاقوں میں تو مسلمان غیر مسلموں سے بھی شادی کر رہے ہیں۔ ایوو شہر میں میری جان پہچان ایک خاتون سے ہوئی جس کی عمر شاید پچاس پچپن برس تھی اور اس کا تعلق جیجانگ ( Zhejiang ) صوبے کے شہر جا شنگ ( Jiaxing ) سے تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کا خاندان مسلمان کہلاتا ہے لیکن اس نے غیر مسلم سے شادی کی تھی۔ اور اس سے اس کا ایک بیٹا بھی تھا جو ان کی طلاق کے بعد اکیلا رہتا تھا۔

میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ان کے علاقے میں بہت سے مسلمان ہیں اور مسجد بھی ہے لیکن اب یہ مسلمان گم ہو چکے ہیں۔ گم ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ صرف حکومت کے کاغذات میں ( Hui ) ہوئی کہلاتے ہیں اور ساٹھ سال کی عمر کے بعد ہی کسی کو یاد آتا ہے کہ ہم تو مسلمان تھے۔ یا آپ یوں سمجھ لیں کہ انقلاب میں اس بڑی آبادی کو گنتی کے چند افراد تک محدود کر دیا۔ رہی سہی کسر 1966 کے کلچر ریولوشن ( cultural Revolution ) نے پوری کر دی۔

مسلمان کئی فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایغور دین کی صوفیانہ تعبیر کے حامل ہیں۔ چونکہ یہ ترک نسل ہیں اس لیے وہیں سے یہ تعبیر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ جو تعلیم کی غرض سے 1980 کی دہائی میں پاکستان، ایران یا سعودی عرب گئے وہ وہاں سے اپنے ساتھ وہاں کی دینی تعبیرات بھی لے آئے۔ چھن ہائی ( Qinghai ) نن شاہ (۔ Ningxi ) ، کانسو ( Gansu ) کے مسلمان سنٹرل ایشیاء سے آئے تھے یہ بھی دین کی صوفیانہ تعبیر کے حامل ہیں۔ ان میں دو خاص فرقے ہیں جو ذکر خفیہ اور ذکر جہریہ والے ہیں۔

پھر دیوبندی قدیمہ اور دیوبندی جدیدیہ یعنی حیاتی مماتی سمجھ لیں۔ کچھ جو سعودی عرب وغیرہ گئے وہ سلفی تعبیر لے کر آئے، انہیں رفع یدین والے کہا جاتا ہے۔ ان کی نفرت کا سب سے بڑا اظہار ( Gansu ) کانسو صوبے کے علاقے ( Linxia ) لین شاہ میں ہوتا ہے جسے کسی دور میں چائنا کا مکہ کہا جاتا تھا۔ دس بارہ سال پہلے تک یہاں آئے روز ان کی آپس میں لڑائیاں بھی ہوتی رہتی تھی اور مساجد بھی ہماری طرح الگ الگ ہی تھیں اور ایک دوسرے کے خلاف فتووں کی بھرمار تھی۔

یہ وہی منظر تھا جو چھٹی صدی کے بغداد کا تھا کہ ایک مکتبہ فکر دوسرے کو کافر کی سند عطا کرنا عین فریضہ دینی سمجھتا۔ مساجد کے منبروں سے علی الاعلان ایک دوسرے کی تکفیر کی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ علماء کی گرمی گفتار کی وجہ سے لڑائیاں ہو جاتی تھیں۔ ہر گروہ کو اپنے اس دعوے پر اصرار تھا اور ہے کہ دین کے فہم کی اصل کنجی اسی کے ہاتھوں میں ہے اور صرف اسی کا مسلک بر حق ہے۔ اس وقت تو سلطان بیبرس نے حرم مکی میں چار مصلے بچھا دیے لیکن یہاں مساجد الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔

ایک دفعہ میں کانسو ( Gansu ) صوبے کے شہر ( Ping Liang ) پھین لیانگ ٹیکسی میں بیٹھا۔ ٹیکسی ڈرائیور مقامی مسلمان تھا، میں نے اسے کہا کہ جہاں مجھے جانا ہے اس کے قریب ہی کسی مسجد میں مجھے اتار دینا تاکہ میں نماز پڑھ لوں گا۔ اس نے پوچھا کون سی مسجد ذکر جہریہ کی، ذکر خفیہ کی، قدیمہ کی، جدیدہ کی، سلفیوں کی؟ میں نے اسے کہا کسی میں بھی اتار دینا میں نے تو صرف نماز ہی پڑھنی ہے۔ اس نے کہا : کیا تم مسلمان ہو؟

میں نے جواب دیا کہ مسلمان ہوں۔ اس نے شہادت کی انگلی اٹھائی اور مجھ سے پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے اسے کہا کہ یہ تمہاری انگلی ہے۔ اس نے بغیر کسی توقف کے کہا، نہیں! تم مسلمان نہیں ہو۔ میں نے تنگ پڑ کر اسے کہا۔ اچھا کسی مندر ہی میں اتار دینا، میں نماز پڑھ لوں گا۔ اس کا انگلی اٹھانے کا اشارہ خدا واحد کا اشارہ تھا اور شاید یہی مسلمان ہونے کی نشانی تھی، ٹریڈ مارک۔ لیکن کیا نماز پڑھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ کسی مخصوص مسجد میں جایا جائے؟

یہ فرقوں کی آپس میں نفرت کی حالت تھی۔ یہی حالت ایک دوسرے کے خلاف لڑائیوں تک لے جاتی تھی۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے حکومت نے تنگ آ کر سب کو حساب کتاب میں کر دیا۔ تمام مذہبی کتب چائنیز زبان میں یہیں لن شاہ ( Lin xia ) سے چھپتی تھیں اور عربی کتب کے تراجم چائنیز زبان میں یہیں سے ہوتے تھے۔ میں نے جن عربی کتب کے تراجم کو دیکھا ان میں سید قطب شہید کی معلم فی الطریق، علامہ یوسف القرضاوی کی حلال و حرام، تفسیر ابن کثیر شامل ہیں۔

مولانا سید مودودی رحمہ اللہ کی کتب کے بھی تراجم ہوئے جن میں خطبات، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، دینیات، سود اور تفہیم القرآن کی دو جلدوں کا ترجمہ بھی ہوا ہے۔ لیکن شاید یہ سب کچھ بہت کم مسلمانوں نے پڑھی ہوں گی۔ اس کی ایک وجہ حکومت کی طرف سے اشاعت پر پابندی اور دوسری وجہ مسلمانوں کی اپنی عدم دلچسپی بھی ہو سکتی ہے۔ اس علاقے میں مدارس کی بہت بڑی تعداد ہے اور ایوو شہر میں عربی مترجم اکثر اسی علاقے کے ہوتے ہیں۔

لیکن ایوو شہر میں بھی مسلمانوں کی علاقائی تقسیم واضح نظر آتی ہے۔ ایوو ( yiwu ) کی مسجد میں امامت پر ہونے والا جھگڑا بھی اسی علاقائی عصبیت پر تھا۔ اس کی اصل وجہ شاید سترویں صدی میں Gansu صوبے میں ہونے والی تنگن ( Dongan ) بغاوت ہے، جس میں Linxia شہر کے مسلمانوں نے مسلمانوں کے خلاف محاصرہ کر لیا تھا۔ اس دور میں بادشاہت کمزور پڑ چکی تھی اور جگہ جگہ بغاوتیں ہو رہی تھیں۔ یہ محاصرہ بھی فرقہ ورانہ بنیاد پر ہی کیا گیا تھا اور بہت سے مسلمان اس میں مارے گئے تھے، یہ وار لارڈز کا دور تھا۔ دولت کاشغریہ پر حملہ کرنے والے چائنیز کے ساتھ یہی خفیہ ذکر کے فرقے کے کانسو ( Gansu ) کے مسلمان تھے اور اس بغاوت میں کہا جاتا ہے کہ لاکھوں کی آبادی چند ہزار باقی بچی، باقی قتل کر دی گئی اور کچھ سفر اور بھوک سے مر گئے۔

یہ لین شاہ ( Linxia ) شہر جو کسی دور میں چائنا کا مکہ کہلاتا تھا اور جسے اسلام کی اشاعت کا کام کرنا تھا، آپس میں ہی مسلمان الجھ گئے۔ کچھ حکومت کی سختیاں تھیں، رہی سہی کسر خود مسلمانوں کی آپس کی چپقلش نے پوری کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments