پلاسٹک کے کھلونے۔ بانجھ فکر


لکڑی کی کاٹھی، کاٹھی یہ گھوڑا۔ بچپن میں سنا ہو گا۔ آج بھی اگر سماعتوں سے ٹکڑا جائے تو یادوں کی ایک ندی بہنے لگتی ہے۔

پھر جگ جیت کا مشہور گیت۔ ’یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو۔ بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی۔ مگر مجھ کو لوٹا دو۔ بچپن کا ساون۔ وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی۔ بچپن کا خوبصورت دور اور اس سے جڑی زندگی۔

مٹی ’کاغذ اور لکڑی کے کھلونوں سے کہانیاں جڑ جاتی یا کہیے کہانیوں کی کہانیاں۔ مٹی اور لکڑی کے بنے کھلونے جیسے سانس لیتے ہوں ان کے ساتھ کھیلنے میں زندگی کی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔

کبھی مٹی کے کھلونے ہوا کرتے تھے زندگی کے قریب لگتے تھے۔ لکڑی کے کھلونے۔ وہ بھی اب کم یاب ہیں۔ جیسے لکڑی کا لاٹو، لکڑی سے تراشی ہاتھ گاڑی، مٹی کے برتن، جو بچپن سے بڑھاپے تک ایک بیل کی طرح ذہن میں رہتے ہیں۔ ایک حساس سا احساس جو کھیل کھیل میں تا حیات سوچ میں رہتا تھا۔

اب پلاسٹک کا زمانہ ہے۔ پلاسٹک جس نے زندگی کو آلودہ کر دیا۔ آسانی سے دستیاب پلاسٹک، جس کی شاید کوئی روح نہیں اور حیات پر بھی بوجھ، جس کا فقط مادی وجود ہے جو دھرتی پر اور صحت پر بوجھ ہے۔ اس جھٹ پھٹ مشینی پلاسٹک کا تعلق بھی عارضی اور پھیکا پھیکا سا ہوتا ہے۔ بے مقصد بے حس۔

کھلونوں کے شخصیت پر ہونے والے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مٹی کے کھلونوں سے کھیلنے والوں کے انسان دوست احساسات ہوتے تھے جو عمر بھر ساتھ رہتے۔ جبکہ بے جان پلاسٹک نے آدمی میں بھی مادی اساس بھر دیا جو آج کے کمپنی کلچر میں عیاں ہے جہاں آدمی سیٹھ کا منافع کمانے کا فقط ایک پرزہ ہے۔ پرزہ بیمار پڑ گیا باہر پھنک دو۔ ایسے ہی جیسے پلاسٹک کا کھلونا ٹوٹ گیا تو اور لے آؤ۔

انسانی زندگی میں مشاہدہ سب سے اہم ہے۔ یہ ہی سب سے پہلی اور بنیادی علمی ذریعہ ہے بچہ کھیل کھیل میں سیکھتا ہے۔ ماہر نفسیات کا ماننا ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ کسی قسم کے نظریات لے کر دنیا میں نہیں آتا۔ وہ سب کچھ اردگرد کے ماحول اور اپنے مشاہدے کو استعمال کر کے سیکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چھ سال کی عمر تک کے بچوں کے لئے سیکھنے کا اہم ذریعہ کھیل کھیل میں سیکھنا ہے۔ جس کی بدولت بچوں میں تنقیدی پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوتی ہیں، جو ان کی عملی زندگی میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ اس تمام تجربے کا بہت اہم جزو کھلونے ہیں۔ کھلونے کھیل کھیل میں کھیلنا سیکھا دیتے ہیں۔

پلاسٹک کے کھلونے بے جان کھوکھلے احساسات کو جنم دیتے ہیں جیسے کہ بانجھ فکر۔ مادیت پرستی۔ بے عملی۔ کاہلی۔ مفاد پرستی اور یہی سوچ بچوں کے ذہین مہین پختہ ہو جاتی ہے۔

یاد ہے پہلی سائیکل۔ کرائے پر لا کر چلانا سیکھنا۔ یاروں نے دھکا لگانا۔ گرنا سنبھلنا۔ اور پھر آہستہ آہستہ سائیکل چلانا سیکھ جانا۔ کھیل کھیل میں کھیل کھیل جانا۔

بقول شاعر۔
اک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں
ڈھونڈتا پھرا اس کو وہ نگر نگر تنہا
جاوید اختر
وقت ایک بچہ سا
آدمی کھلونا ہے
دل سا کھلونا ہاتھ آیا ہے
کھیلو توڑو جی بہلاؤ
ابن صفی

اور پلاسٹک کھلونا ارتقائی عمل سے گزرتا ہوا ورچل ریلیٹی سے جا ملا ہے۔ ٹیب یا موبائل فون پر بٹن دباؤ اور کھیلتے جاؤ۔ پب جی۔ ریسنگ اور دیگر گیمز۔ با آسانی ڈان لوڈ کرو جب جی کرے کھیلو پھر ڈیلیٹ کرو اور اگلی ڈاؤن لوڈ کرو۔ اس میں بنیادی چیز پلاسٹک فلاسفی ہے۔ ریڈی ٹو یوز۔ ڈسپوزیبل۔ استعمال کرو اور پھنک دو۔ استعمال کر پھنک دو والی سوچ پلاسٹک کے کھلونوں میں پنہا ہے جو آہستہ آہستہ کب بچے کی معصوم سوچ میں اس حد تک سرایت کر جاتی ہے کہ اسے نکالنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ تب صرف کارپوریٹ غلام ہی بنتے ہیں انسان نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments