عمران خان وزیراعظم نہیں رہے


آخری گیند تک لڑوں گا میں جھکنے والا نہیں ہوں بہت جلد سرپرائز دوں گا جیسے ڈائیلاگ بولتے بولتے بالآخر عمران خان نے 3 اپریل کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز بھیج دی ہے اور قوم نئے انتخابات کی تیاری کرے اور کچھ ہی لمحوں بعد صدر مملکت نے وزیراعظم کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی 25 جولائی 2018 میں شروع ہونے والا تبدیلی کا سفر ریاست مدینہ بناتے بناتے مدت اقتدار پوری کرنے سے ایک سال قبل ہی اختتام پذیر ہو گیا۔ جس تیزی سے اقتدار میں آئے تھے اس سے کہیں زیادہ رفتار کے ساتھ اقتدار کو چھوڑ کر نکلے۔ بدترین طرز حکمرانی کے بعد بھی سیاسی شہید بننے کی کوشش کا مطلب کہ اب بھی امید سے ہیں کہ آئندہ بھی اقتدار میں آئیں گے

اس سارے سیاسی منظر نامے میں کمال تو ڈپٹٰی اسپیکر نے کیا اور جس طرح تحریک عدم اعتماد مسترد کی اس سے بہرحال ایک بار تو اپوزیشن بھی پریشان ہو گئی کہ آخر یہ ہوا کیا ہے۔ جب تک سنبھلتے تب تک وزیراعظم کے خطاب کے بعد صدر اسمبلی توڑ چکے تھے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور ابتدائی سماعت کے بعد اگلے دن سماعت کے لیے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔ اب یہ معاملہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ہے دیکھتے ہیں کہ معزز عدلیہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق کیا فیصلہ دیتی ہے اس وقت تک اس پر بات کرنا مناسب نہیں

تاہم جب تک عدالت کا فیصلہ آتا ہے تب تک تبدیلی سرکار پر بات کرلی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ 2018 میں تحریک انصاف کا اقتدار میں آنا عوامی امنگوں اور خواہشات کے مطابق بالکل نہیں تھا۔ بلکہ کپتان کو اقتدار میں لانے کے لیے بقول اپوزیشن پورا الیکشن مینیج کیا گیا۔ اپوزیشن کے الزامات کے مطابق مضبوط امیدواروں کو دباؤ دیا گیا کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہوں بہت سے مضبوط امیدواروں سے کہا گیا کہ وہ اپنی پارٹی کی ٹکٹ واپس کریں اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں۔ اور اس کے علاوہ بھی بہت سے سنجیدہ الزامات اپوزیشن کی طرف سے ان انتخابات پر عائد کئیے گئے۔ اور ان الزامات کی بنیاد پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کپتان کو سلیکٹڈ کا خطاب دیا۔

الیکشن کے بعد تو گویا ایک نئے دور کا آغاز ہوا سیاسی مخالفین کی گردن پر نیب کی چھری رکھ دی گئی۔ کوئی مضبوط سیاسی حریف میدان میں موجود نہیں رہا سب کے سب جیل کی ہوا کھاتے رہے۔ جن پر مالی بدعنوانی ثابت نہیں ہوئی ان پر منشیات کے کیس بنا دیے گئے۔ سیاسی مخالفین کی کردار کشی کی ایک منظم مہم چلائی گئی۔ کپتان کو ملکی سطح پر مسیحا بنا کر پیش کیا گیا ایک ایسی صادق و امین ہستی جس کے سامنے ہر شخص گنہگار اور سیاسی طور پر بونا نظر آنے لگا۔ زہد و تقویٰ ایسا کہ مدینہ پہنچ کر جوتے نہیں پہنے جس نے دیکھا عش عش کر اٹھا

کپتان مسیحا سے عاشق رسول کے درجے پر پہنچا اور پارٹی ہر پینا فلیکس پر عاشق رسول واضح انداز میں لکھوانے لگی۔ ہاتھ میں تسبیح اور کبھی یونس ایمرے کو پڑھنے کی تلقین تو کبھی سلطنت عثمانیہ کے ڈرامے دیکھنے کی تاکید۔ مولانا رومی کی حکایات کا حوالہ اور قرآنی آیات کی اپنی فہم کے مطابق تشریح و تفسیر نے گویا ایک متقی اور پرہیز گار شخص ہونے پر مہر ثبت کردی۔ مگر سلسلہ یہاں پر رکا نہیں کیونکہ کپتان نے بہت آگے کا سفر کرنا تھا شہرت کی بلندیوں کو چھونا تھا لہذا او آئی سی اجلاس کی میزبانی پر کپتان سیاسی طور پر عالم اسلام کا ہیرو بن گیا ایک ایسا ہیرو جس نے مسلم امہ کی قیادت کرنے کی صلاحیت سب سے زیادہ تھی۔

سب کچھ پلان کے مطابق تھا سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا بس ایک چیز جس پر کپتان کا اختیار نہیں تھا وہ بدترین معاشی حالت اور قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم تھا۔ بے روزگاری، مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا۔ بنیادی ضروریات زندگی کا حصول بھی ناممکن ہونے لگا۔ عوام نے دہائی دینا شروع کی مگر کان پر جوں تک نا رینگی اور تلقین کی گئی کہ مشکل وقت ہے گھبرانا نہیں ہے۔ مگر جب تین سال میں بھی حالات نا بدلے اور عام آدمی کی حالت دگرگوں ہونے لگی تو پھر سوچا جانے لگا کہ کچھ کیا جائے اور سوچتے سوچتے عوام کو سب سے بڑا ریلیف یہ دیا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دے دی۔ بلاشک و شبہ عوام کے لیے اسے سے بڑا ریلیف فی الوقت اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک نا اہل اور نالائق حکمران کا چلے جانا ہی انعام ہوتا ہے۔

مگر سوال تو بنتا ہے اور ان سے بنتا ہے جو بلاول بھٹو کے بقول کپتان کو سلیکٹ کر کے لائے تھے کہ آخر اس ساری دھینگا مشتی سے کیا حاصل ہوا۔ عوام اور ملک کی بات چھوڑیں ان دونوں سے تو کسی نے وفا نہیں کی اور نا کبھی ان کے متعلق سوچا ہے یہ بتائیں کہ آپ کو کیا فائدہ ہوا۔ کیا کپتان کی صورت میں جو تجربہ کیا گیا وہ ناگزیر تھا کیا اس سے بہتر کوئی سیاسی حل موجود نہیں تھا۔ ملکی قرض میں ہزاروں ارب روپے کا اضافہ ہوا مگر معاشی حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ نا اہلی اور نالائقی کی انتہاؤں کو چھوتی تبدیلی سرکار نے موجودہ نظام کی بقا پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔

سفارتی آداب سے بے بہرہ قیادت نے اقوام عالم میں ہمیں ایک مذاق بنا دیا ہے۔ دوستوں کو ہم پر اعتبار نہیں رہا اور مخالف ہم پر ہنس رہے ہیں حالت تو یہ ہے کہ امریکہ سے دیرینہ تعلقات ہیں اور یوکرائن پر حملہ غلط ہے کہنے کے لیے بھی مسلح افواج کے سربراہ کو سامنے آ کر بیان دینا پڑا۔ سیاسی نظام داؤ پر لگ چکا ہے۔ کیا یہی سلیکشن تھی کیا یہی گوہر نایاب ملک و قوم کے لیے تلاش کیا گیا تھا۔ کیا یہی وہ قد آوار سیاسی شخصیت تھی جس نے سیاسی نظام کو استحکام بخشنا تھا مگر حالت یہ ہے کہ یہ تو اپنی مدت اقتدار پوری نہیں کر سکا۔ اگر یہ غلطی ہے تو بلاشبہ ایک بھیانک غلطی ہے اور جس سے یہ بھیانک غلطی سرزد ہوئی ہے اس کو چاہیے کہ اس کی اصلاح کرے اور آئندہ کے لیے اگر سلیکشن ہی کرنی ہے تو ڈھنگ کی سلیکشن کرے وگرنہ بہتر تو یہی ہے کہ عوام کو فیصلہ کرنے دیں کیونکہ جنتا اپنا اچھا برا بہتر سمجھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments