ایک کروڑ نوکریوں پچاس لاکھ گھر سے لے کر خودداری کے منجن تک


سترہویں صدی کے آخر میں فرانس کے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگ بے روزگار ہو گئے اور افراط زر آسمان سے باتیں کرنے لگا تھا۔

جب وزیروں نے فرانس کے بادشاہ اور ملکہ کو بتایا کہ لوگوں کے پاس روٹی خریدنے کے پیسے نہیں ہیں تو ملکہ میری اینٹونیٹ نے جواب دیا کہ ان سے کہو کہ کیک کھا لیں۔

تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ ملکہ میری اینٹویٹ نے ایسا کوئی جملہ ادا نہیں کیا تھا۔ یہ جملہ نادانستہ طور پر اس ملکہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو لیکن ملکہ میری اینٹونیٹ کا طرز زندگی بہت شاہانہ تھا اور بھوک میں گھری ہوئی پبلک کی اس کو کوئی فکر نہیں تھی۔

جب لوگ فاقے کر رہے تھے تو ملکہ اور بادشاہ اس وقت اپنے دوستوں کے ساتھ انتہائی شاہانہ زندگی گزار رہے تھے۔ ملکہ کے بالوں اور اس کی وگ کا خرچہ ہی اس وقت کے مطابق لاکھوں ڈالر میں تھا۔

لوگوں کو جب اس بات کا پتا چلا تو مختصر سے عرصے میں ہی انقلاب فرانس رونما ہوا اور عوام نے ملکہ میری اینٹونیٹ کا سر کاٹ کر اس کے محل کی کھڑکی پر ٹانگ دیا۔ روٹی، آلو اور ٹماٹر پر توجہ نہ دینے کے باعث بادشاہ اور ملکہ اپنے انجام کو پہنچے۔

پاکستان بننے کے تقریباً 18 سال کے بعد سنگاپور آزاد ہوا تھا۔ آج سنگاپور کہاں ہے اور ہم کہاں، یہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جدید سنگاپور کا بانی لی کوان تھا جس نے سب سے پہلے سنگاپور کی معیشت پر توجہ دی۔

لی کوان نے ہالینڈ کے مشہور ماہر معاشیات البرٹ ونسیمیس سے رابطہ کیا۔ اس نے البرٹ کے ساتھ مل کر صنعتوں کا جال بچھایا اور باقی تاریخ ہے۔ جب کسی ملک کی معیشت اچھی ہوتی ہے تو اس کا اثر عام آدمی کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ آج سنگاپور کے کسی شہری کو گھر، روزگار، آلو اور ٹماٹر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ملیشیا کے مہاتیر محمد نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ اس نے آئی ایم ایف سے قرضہ کی بجائے اپنی کرنسی کو ڈالر سے ایک شرح پر مقرر کر دیا۔ آج بھی ایک ملیشین رنگت تقریباً چار روپے بائیس پیسے کے برابر ہے۔ صنعتی انقلاب، الیکٹرانک اور پالم آئل پر توجہ دینے سے آج ملیشیا کے لوگ خوشحال ہیں۔ جو ملک معیشت میں طاقتور ہیں اور اپنی عوام کو روزگار یعنی روٹی، آلو اور ٹماٹر دے رہے ہیں، وہ ہی سکون کا سانس لے رہے ہیں۔

دوسری طرف زمبابوے کے رابرٹ موگابے کی کہانیاں آپ کو پتا ہیں۔ وہ زمبابوے جو ایک زمانے میں افریقہ کا دوسرا بڑا تجارتی ملک ہوتا تھا، وہاں اب خاک اڑتی ہے۔

ایک مطلق العنان حکمراں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہاں نہ روزگار ہے اور نہ ہی روٹی۔ ایک امریکی ڈالر تقریباً 362 زمبابوے ڈالر کے برابر ہے۔ معیشت پر توجہ نہ دینے سے یہ حال ہوا۔ ایسے ملکوں کی کون عزت کرتا ہے؟

یہ چند مثالیں تھی۔ جن لوگوں نے معیشت پر توجہ دی اور لوگوں تک روٹی، آلو اور ٹماٹر پہنچائے، وہ لی کوان اور مہاتیر کی طرح امر ہو گئے۔ جنہوں نے غریب کے رزق کا مذاق اڑایا ان کے سر ان کے محل کی کھڑکیوں سے لٹکا دیے گئے چاہے وہ فرانس کی ملکہ ہو یا رابرٹ موگابے۔

عزت معیشت سے جڑی ہے۔ انڈیا کے فارن ریزرو 617 بلین ڈالر اور پاکستان کے صرف 12 بلین ڈالر۔ پاکستان کے ایک حکمراں نے نوکریوں، گھروں سے لے کر کئی وعدے کیے تھے۔ وہ وعدے وفا نہ ہوئے۔

اس حکمراں نے بھی روٹی آلو اور ٹماٹر کا مذاق اڑایا تو آج اس کی بھی حکومت ختم ہو گئی۔ حکمراں بھول جاتے ہیں کہ کسی ملک کے لئے سب سے اہم چیز اس کی معیشت ہی ہوتی ہے۔

آج ہماری قوم کو عزت دینے کا منجن بیچا جا رہا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ میں آلو ٹماٹر کی قیمت صحیح کرنے نہیں آیا تھا، آپ کو عزت دار قوم بنانے آیا تھا۔ پاکستان کا پاسپورٹ 2017 میں بہتر پوزیشن میں تھا اور اب صرف افغانستان، عراق اور صومالیہ سے بہتر ہے۔ آپ تو عزت بھی نہیں دے سکے صاحب!

مقصد کسی خاص حکمراں پر تنقید نہیں بلکہ ان کی پالیسیوں سے اختلاف، عوام کے مسائل، لوگوں کے لئے بہتر تعلیم اور صحت کی سہولیات کی طرف نشاندہی کرنا ہے۔ حکمرانوں کے قصیدے پڑھنے کے لئے ان کے درباری بہت ہیں۔

یاد رکھئے، ملکوں کی عزت معیشت سے ہی ہوتی ہے۔ جو ملک قرض نہیں لیتے، اپنے استعمال کی چیزیں خود بناتے ہیں، اپنی پیداواری صلاحیت بڑھاتے ہیں، وہی ترقی کرتے ہیں کیونکہ ” خالی پیٹ کا مذہب روٹی ہوتا ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments