وہ زندہ تھا یا مر چکا تھا


میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا اور کاغذ قلم نکال کر کچھ لکھنے ہی والا تھا کہ اچانک وہ آن دھمکا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ انتہائی خوف زدہ لگ رہا تھا۔ میں نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔

”کیا ہوا؟“
اس نے میرے ہاتھ سے قلم اور کاغذ لے کر سائیڈ پر رکھا اور ڈرے ڈرے لہجے میں کہا۔
”میں بہت پریشان ہوں۔ کوئی مجھے مارنا چاہتا ہے۔“
میں نے پانی کا ایک گلاس اسے پیش کیا اور تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”دیکھو تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھبرا جاتے ہو۔ مجھے پوری بات بتاؤ۔“
اس نے خوف زدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھا۔ پھر دبی ہوئی آواز میں کہنے لگا۔

”تم شاید میری بات کو مذاق سمجھ رہے ہو۔ میں سچ کہہ رہا ہوں۔ اس بار معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔ کوئی مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن میں اپنے قاتل کو کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔“

میں نے چند لمحے اسے گہری نظروں سے دیکھا پھر رسان سے کہا۔
”تم اس قدر گھبرائے ہوئے ہو۔ اس طرح تم اپنے ممکنہ قاتل کو کیسے روکو گے۔“
اس کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے۔
”یہ تم کہہ رہے ہو؟ مجھے یقین نہیں ہوتا، تم تو میرے دوست ہو۔ تم میرے ساتھ ہو یا میرے قاتل کے ساتھ۔“
میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس کا جسم لرز رہا تھا۔

”تم میرے دوست ہو اور زندہ سلامت میرے سامنے بیٹھے ہو۔ اسی لیے تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس وہم سے باہر نکلو۔ کوئی تمہارا دشمن نہیں ہے۔“

اس نے بے یقینی سے مجھے دیکھا پھر مجھے یقین دلانے کی کوشش کرنے لگا کہ کوئی اسے مارنا چاہتا ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ کون ہے جو تمہیں مارنا چاہتا ہے تو اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ ناراض ہو کر چلا گیا۔ مجھے یقین تھا کہ اس کی ناراضی عارضی ہے۔ وہ پھر آئے گا۔ اسی طرح ہوا۔ لیکن دوسرے دن بھی ملتے ہی اس نے کہا کہ کوئی میرے پیچھے ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ عجیب عجیب باتیں کیا کرتا تھا مگر جلد ہی بھول جاتا تھا۔

میں نے اس بار بھی بھی سمجھا بجھا کر اسے رخصت کیا۔ دو تین دن میں مصروف رہا اور اس سے مل نہ سکا۔ اس کے بعد وہ مجھے مارکیٹ میں ملا۔ مجھے ایک دوست کی شادی میں شرکت کرنی تھی۔ میں شیروانی خریدنے نکلا تھا۔ سپر مارکیٹ میں گاڑی پارک کر کے جیسے ہی میں گاڑی سے نکلا کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ کھڑا تھا۔

”اچھا ہوا تم مل گئے میرے دوست۔ آج وہ میرا پیچھا کر رہا ہے۔“
میں نے اس کے پریشان چہرے کی طرف دیکھا۔ مجھے اس سے ہمدردی محسوس ہوئی۔
”کون پیچھا کر رہا ہے؟ کیا وہی جو تمہیں مارنا چاہتا ہے؟“

”ہاں وہی۔ وہ پچھلے کئی گھنٹے سے میرا تعاقب کر رہا ہے، کھل کر سامنے نہیں آتا۔ لیکن میں جانتا ہوں وہ میرے پیچھے ہے۔“ اس نے پھر دائیں بائیں دیکھا۔

”اچھا ٹھیک ہے۔ مجھے بتاؤ۔ وہ کدھر ہے؟“

”ابھی تو بڑی مشکل سے میں نے اسے جل دیا ہے۔ مختلف گلیوں سے گزر کر یہاں پہنچا ہوں لیکن وہ جیسے ہی نظر آیا، میں تمہیں بتاؤں گا۔“

”وہ کیسا دکھائی دیتا ہے؟“

”ٹھیک سے بتا نہیں سکتا۔ وہ حلیے بدلتا رہتا ہے، کبھی کلین شیو ہوتا ہے، کبھی اس کے چہرے پر داڑھی ہوتی ہے“

”تم پولیس سے رابطہ کیوں نہیں کرتے۔ چلو میں تمہارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلتا ہوں۔“

”نہیں نہیں۔ میں پولیس اسٹیشن نہیں جاؤں گا۔ ہمارے محافظ ہی اکثر قاتلوں اور ڈاکوؤں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیا تم بھی مجھے قتل کروانا چاہتے ہو؟“ وہ بدک گیا۔

”اچھا چھوڑو۔ آؤ میرے ساتھ میں شیروانی خرید لوں، پھر تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔“

وہ میری بات سن کر مطمئن نظر آنے لگا۔ اسے اس کے گھر چھوڑ کر میں واپس چلا آیا۔ اس بار اس کا جنون بڑھتا جا رہا تھا۔ دوسرے دن شام کو وہ میرے گھر آیا تو بہت سنجیدہ تھا۔ اس کے چہرے پر گہرے تفکرات کی پر چھائیاں تھیں۔

”سنو میرا قاتل اکیلا نہیں ہے۔“ اس نے پرخیال لہجے میں کہا۔
میں اٹھ کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ پھر نرمی سے کہا۔
”کیوں نہ ہم کسی ڈاکٹر سے ملیں۔ میں تمہیں لے جاؤں گا“
وہ میری بات سن کر بھڑک اٹھا۔ پھر غصے سے بولا۔

”تم کیا سمجھتے ہو، کیا میں پاگل ہوں یا مجھے کوئی نفسیاتی بیماری ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ کتنی بار میں بتا چکا ہوں کہ میرا قاتل ایک حقیقت ہے۔ اور اس بار اس نے مجھے باقاعدہ دھمکی دی ہے۔“

میں چونک اٹھا۔ کیا واقعی اس بار وہ سچ بول رہا ہے۔
”کیا دھمکی دی ہے، کیا وہ تم سے ملا تھا؟“
اس نے میرے انداز میں ہمدردی پا کر رازدارانہ لہجے میں کہا۔

”اس نے مجھے دھمکی آمیز خط لکھا ہے۔ آج صبح جب میں سو کر اٹھا تو میرے سرہانے ایک خط رکھا تھا۔ اس خط میں اس نے صاف صاف لکھا ہے کہ وہ مجھے کسی قیمت پر نہیں چھوڑے گا اور قتل کر کے رہے گا۔“

”تم مجھے وہ خط دکھاؤ۔ ہمیں اب پولیس سے ملنا ہی پڑے گا۔ ہم اس خط کی تحریر سے اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ تمہارا دشمن کون ہے۔“

”تم نے پھر ایسی باتیں شروع کر دیں۔ میں وہ خط تمہیں نہیں دکھا سکتا۔ اس نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر کسی کو بتایا یا پولیس سے رابطہ کیا تو پھر میری لاش ہی ملے گی۔“ وہ پھر ہتھے سے اکھڑنے لگا۔

”تو پھر ایسے ڈر ڈر کر تم کیسے جیو گے۔ کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔“
اس کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ پھر جیسے اس نے خود کو سنبھال لیا۔

”کچھ نہیں ہو گا۔ میرا قاتل بڑا چالاک ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے ایسے مارے گا کہ کوئی اسے قتل ثابت نہیں کر سکے گا۔ لیکن میں اسے ہرا کر دکھاؤں گا۔ وہ مجھے قتل نہیں کر سکے گا۔“

”میرے دوست مجھے بتاؤ۔ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں۔“
اس نے امید بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”بس میرا ساتھ کبھی مت چھوڑنا۔“
میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا۔
”تم نے کیسے سوچ لیا کہ میں تمہارا ساتھ چھوڑوں گا۔“

وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔ اس رات میں دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ وہ کس وہم میں مبتلا تھا۔ پھر اچانک مجھے خیال آیا۔ شاید وہ سچ کہہ رہا ہو۔ شاید واقعی اس کا کوئی دشمن ہو۔ ایسی صورت میں مجھے اس کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ مگر کیا کروں وہ کھل کر کچھ بتاتا بھی نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ صبح اس سے بات کروں گا۔ یہی سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی۔ لیکن ابھی کچی نیند میں ہی تھا کہ کسی نے زور سے دروازے پر دستک دی۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اتنی رات گئے کون ہو سکتا ہے؟

دروازہ کھولا تو وہ سامنے کھڑا تھا۔ میں نے جلدی سے اسے اندر بلایا۔ دروازہ بند کر کے میں نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔

”اس وقت خیریت تو ہے؟“
اس کے چہرے پر گہرا اطمینان تھا۔ وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا۔
”فکر مت کرو۔ اب وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔“
”کیا مطلب؟ تم اپنے قاتل کی بات کر رہے ہو؟“
”ہاں اسی کی۔ میں نے اسے ہرا دیا ہے۔“
اسے پرسکون دیکھ کر میں نے بھی گہری سانس لی اور کہا۔
”اچھا۔ پورا واقعہ بتاؤ۔“
وہ ہاتھ سے اپنی گردن مسلتے ہوئے بولا۔

”آج شام جب میں گھر گیا تو وہ پہلے سے ہی گھر میں موجود تھا۔ لیکن میں بالکل بھی خوف زدہ نہیں تھا۔ میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ اس کا یوں اچانک سامنے آ جانا میرے لیے سرپرائز ہو گا۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ وہ ایسی ہی حرکت کرے گا۔ اسی لیے میں نے اس سے نبٹنے کا پلان بنا رکھا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر پستول نکال لیا۔ اور بڑی بڑی باتیں کرنے لگا کہ وہ مجھے مار دے گا۔ میں بچ نہیں پاؤں گا۔ میں نے بھی لباس میں چھپایا ہوا بڑا سا چھرا نکال لیا۔ میں چھرا ہی تو تیز کروا کے گھر واپس آیا تھا۔ اس کے بعد وہ ہار گیا، اور میں جیت گیا۔“

وہ کہتے کہتے رک گیا اور فاتحانہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میری آنکھیں پھیل گئیں۔
”اس کا مطلب ہے تم نے اسے قتل کر دیا۔ کیا کیا تم نے؟“

وہ میری بات سن کر ہنسنے لگا۔ پھر ہنستا ہی چلا گیا۔ اس کی ہنسی عجیب سی تھی اور تھمنے میں نہیں آ رہی تھی۔ مجھے ایک لمحے کے لیے شبہ ہوا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس نے ہنسی روک لی۔ اب اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ پھر اس کے لب ہلے۔

”میرا قاتل پوری تیاری سے مجھے مارنے آیا تھا لیکن اس کی تیاری دھری کی دھری رہ گئی۔ اس نے پستول میری طرف تان رکھا تھا۔ گولی چلانے ہی والا تھا کہ میں نے تیز دھار چھرا نکال لیا۔ پھر اسے للکارا۔

”تم مجھے مار نہیں سکو گے۔ میں تمہارے ہاتھوں سے نکل جاؤں گا اور تم ہاتھ ملتے رہ جاؤ گے“

وہ میری بات سن کر ٹھٹک گیا۔ میں نے اسے سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور چشم زدن میں چھرا اپنی گردن پر پھیر لیا۔ یقین کرو کہ اس کی آنکھوں میں شدید حیرت دیکھنے والی تھی۔ میری شہ رگ کٹ گئی تھی، میں فرش پر پڑا تھا اور سرخ سرخ خون سے قالین بھیگ رہا تھا۔ میرا قاتل پستول پھینک کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ ”

سرد لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں اتر گئی۔ میں نے بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھا۔
”یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم تو میرے سامنے بیٹھے ہو اور زندہ ہو۔“
اس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بولا۔

”تم سے کس نے کہا کہ میں زندہ ہوں۔ میری لاش تو میرے گھر کے ڈرائنگ روم میں پڑی ہے۔ تمہیں یہی بتانے تو آیا ہوں۔ دوست اب دیر نہ کرو۔ تمہیں ابھی بہت سے کام کرنے ہیں۔ دیگر دوستوں کو اطلاع دینی ہے، کفن خریدنا ہے اور ہاں قبر بھی کھدوانی ہے۔ جلدی کرو میرے دوست۔ فون اٹھاؤ نمبر ڈائل کرو“

میرے بدن میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔ جسم جیسے شل ہو چکا تھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments