قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد کیا صوبائی اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کر سکتی ہیں؟

ترہب اصغر - بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، لاہور


قومی اسمبلی
پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر تین اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے کئی طرح کی سیاسی، آئینی و قانونی مباحث کا آغاز کر دیا ہے۔

جہاں ایک جانب ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے تو دوسری جانب قومی اسمبلی تحلیل کیے جانے پر بھی آئینی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم عمران خان کے تحریک عدم اعتماد جمع کروا رکھی تھی اور آئینی ماہرین کے مطابق جب کسی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آ جائے تو وہ اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار کھو دیتا ہے۔

اس وقت یہ تمام تر معاملہ پاکستان کی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

وفاق میں ہونے والی سیاسی ہلچل کے اثرات ملک بھر دیکھے جا سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے اور اگلے نوے روز میں انتخابات ہونے کے اعلان کے بعد ایک اہم سوال سامنے آیا ہے کہ اس صورتحال میں ملک کی صوبائی اسمبلیوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کر کے وہاں نئے انتخابات ہوں گے یا کوئی بھی صوبہ اپنے طور اپنی اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے؟

پنجاب کی سیاسی صورتحال

اس وقت وفاق کے بعد اگر کسی صوبے میں آئینی اور سیاسی بحران دیکھا جا سکتا ہے تو وہ پاکستان کا صوبہ پنجاب ہے۔ یہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے مگر یہاں کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ گورنر چوہدری سرور کو ہٹا کر عمر سرفراز چیمہ کو نیا گورنر مقرر کیا گیا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تھی اور اس تحریک پر ووٹنگ بھی تین اپریل کو ہی ہونا تھی تاہم ووٹنگ کا عمل شروع کیے بغیر ہی اسمبلی کا اجلاس کو چھ اپریل تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اب یہاں نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے۔

یاد رہے کہ اس وقت پنجاب میں حکومت کی جانب سے چوہدری پرویز الہیٰ وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں جبکہ اپوزیشن کی جانب سے حمزہ شہباز کو وزرات اعلیٰ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

ایسے میں کیا تحریک انصاف کی حکومت چھ اپریل کو ہونے والی ووٹنگ سے قبل صوبائی اسمبلی کو تحلیل کر سکتی ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا یا کیا حزب اختلاف کے امیدوار حمزہ شہباز ووٹنگ میں منتخب ہو جانے کے بعد صوبائی اسمبلی کی آئینی مدت پوری کر سکتے ہیں؟

آئینی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسی صورتحال میں یہ صوبوں کی صوابدید ہے کہ وہ اپنی حکومت صوبے میں قائم رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب کی جانب سے عثمان بزدار کے وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد انھیں اگلے وزیر اعلیٰ کے منتخب ہونے تک کام جاری رکھنے کا کہا گیا ہے، اس لیے وہ ٹیکنیکل بنیاد پر وزیر اعلیٰ ہیں۔

عام حالات میں کسی بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ صوبائی گورنر کو یہ سفارش بھیج سکتا ہیں کہ اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں۔ لیکن کیونکہ عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروائی جا چکی ہے لہذا آئین انھیں یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دے سکیں۔

احمد بلال محبوب ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کی موجودہ صورتحال آئینی طور پر تھوڑا پچیدہ معاملہ ہے۔‘

دیگر صوبے کیا کر سکتے ہیں؟

اس سوال کے جواب احمد بلال کا کہنا تھا کہ آئینی طور ابھی تک تمام صوبوں کے پاس ڈیڑھ سال کی مدت باقی ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور وہاں صوبائی وزیر اعلیٰ اراکین اسمبلی سے مشاورت کے بعد اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز گورنر کو دے سکتے ہیں۔

ان کے مطابق ’لیکن دیگر صوبے جیسا کہ سندھ اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہے۔ اس لیے اگر یہ صوبے فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے اور اپنی آئینی مدت پوری کریں گے تو آئین میں کوئی ایسا طریقہ موجود نہیں کہ انھیں اس عمل روکا جا سکے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر حکومت گورنر کے ذریعے کچھ کرنے کا سوچے گی تو یہ بات یاد رکھنی بھی ضروری ہے کہ گورنر بھی یہ عمل اپنے طور پر نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لیے وزیر اعلیٰ کا اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دینا لازمی ہے۔‘

بینر

پاکستان میں سیاسی صورتحال کی لمحہ بہ لمحہ کوریج بی بی سی لائیو پیج پر

تحریکِ انصاف کا کپتان پہلی اننگز میں ہٹ وکٹ؟

کیا کھویا کیا پایا۔۔۔ عمران خان حکومت کی ناکامیاں اور کامیابیاں

عمران کے ساتھ جو ہو رہا ہے کیا یہ وہی بھٹو والا سکرپٹ ہے؟

عمران خان نگران حکومت آنے تک بطور وزیراعظم کیا کیا کر سکتے ہیں؟

قاسم سوری کی جانب سے آرٹیکل 5 کے استعمال پر آئینی ماہرین کیا کہتے ہیں؟


’اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق نہ کوئی بات ہوئی نہ ہی کوئی خیال ہے‘

اس بارے میں سندھ کے مشیر قانون مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ گورنر اپنے طور پر کچھ نہیں کر سکتے جب تک وزیراعلیٰ انھیں درخواست نہ کریں۔

کیا پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی کو تحلیل کرنے کے متعلق سوچ رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت میں ابھی تک اس پر نہ کوئی بات ہوئی ہے اور نہ ہی مشاورت اور نہ ہی پیپلز پارٹی میں ایسی سوچ یا خیال پایا جاتا ہے۔‘

دوسری جانب اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو وہاں بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف ان کے مخالفین کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی باتیں کی جاتی رہی ہیں لیکن تاحال ان کے خلاف ایسی کوئی تحریک نہیں لائی گئی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق مخلوط حکومت میں ناراضگی اور اختلافات ہیں لیکن اس کے باوجود بظاہر قدوس بزنجو کی حکومت کو تاحال کوئی بڑا خطرہ درپیش نہیں ہے۔

’اگر پورے ملک میں نئے انتخابات کا ماحول بن گیا تو اکثریت کی رائے سے فیصلہ ہو گا‘

بلوچستان کی مخلوط حکومت میں سب سے بڑی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور وزیر برائے مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمان کھیتران سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کے اختیارات صرف اور صرف وزیر اعلیٰ کے پاس ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت قومی اسمبلی کو صدر وزیر اعظم کی تجویز پر توڑ سکتا ہے لیکن اس کا اثر کسی صوبے پر نہیں پڑتا ہے بلکہ صوبائی اسمبلیوں کو وزرائے اعلیٰ کی تجاویز پر گورنر ہی تحلیل کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق اور پنجاب میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کے تناظر میں بلوچستان اسمبلی کے بارے میں تاحال کوئی غور و خوض نہیں کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ اگر وزیر اعلیٰ بلوچستان چاہیں تو بلوچستان اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور یہ جون 2023 تک برقرار رہے گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر پورے ملک میں نئے انتخابات کے لیے ایک ماحول بن گیا تو بلوچستان اسمبلی کو توڑنے کے بارے میں اراکین اسمبلی سے مشاورت کی جائے گی اور ان کی اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

’ہمارے صوبے کے معاملے پر فی الحال خاموشی ہے‘

ویسے تو صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن ابھی تک وہاں بھی کسی قسم کی کوئی سیاسی ہلچل نظر نہیں آتی ہے۔

بیرسٹر محمد علی سیف ترجمان صوبائی حکومت خیبر پختونخوا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں ابھی تک کسی قسم کے کوئی احکامات نہیں ملے ہیں اور نا ہی ہماری اس بات پر مشاورت ہوئی ہے۔ ’اس لیے ہمارے خیال میں تو یہ تمام سیاسی معاملات ابھی وفاق تک ہی محدود ہیں جبکہ ہمارے صوبے کے معاملے پر فی الحال ابھی خاموشی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments