آرٹیکل 5 اور 6 کی مشترکہ کہانی


کچھ عرصہ پہلے میں نے لندن یونیورسٹی کی درسگاہ SOAS میں عاصمہ جہانگیر کی یادگاری تقریب میں قاضی فائز عیسی کے لیکچر اور ان سے پوچھے گئے سوالات کا ذکر گیا تھا۔ راقم نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ وہ سوال تحریراً پوچھ لیتا ہوں جو میں قاضی صاحب سے آرٹیکل 6 کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا۔ غم روزگار کی دلفریبی میں الجھ کر شاید میں اپنے ارادے کو ملتوی کر دیتا لیکن تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں جو صورتحال ابھری ہے اس کے پیش نظر اب وہ سوال کلیدی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس لیے سوال اور اپنا تجزیہ رقم کیے دیتا ہوں۔

پاکستان کی آئینی تاریخ ہچکولوں کی کہانی ہے۔ جو گرما گرمی جسٹس منیر کے آمریت پسندانہ فیصلوں سے پیدا ہوئی اس کی تابکاری کا اثر آج تک جاری ہے۔ 1973 کا آئین بنانے والوں نے آئین کے تحفظ کو سب سے بڑی حب الوطنی قرار دیا اور اس ضمن میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئینی ڈھانچے کے تحفظ کے حوالے سے دو آرٹیکل اہم ہیں۔ آرٹیکل 5 نے ریاست کے ساتھ وفاداری کو ہر پاکستانی شہری کا فرض قرار دیا اور اس وفاداری کو آئین کی پاسداری کے ساتھ مشروط کر دیا۔

اور پھر اگلے آرٹیکل 6 میں اس سوال کا جواب بھی دے دیا کہ اگر آئین کی پاسداری نہ کی جائے تو کیا ہو گا۔ اس کو سنگین ترین جرم قرار دے کر تین قسم کی بغاوتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ”ایبروگیشن“ یعنی منسوخی، ”سسپنشن“ یعنی معطلی اور ”سب ورژن“ یعنی پامالی۔ پہلے دو کا تعلق تو اقتدار پر بزور فوجی بغاوت قبضہ کر کے آئین کو ختم یا ایک طرف کرنے سے ہے لیکن تیسرا جرم یعنی پامالی کا دائرہ کار وسیع تر ہے اور یہاں میں سب ورژن جرم کی کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

سب ورژن دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ اول، حکومت کو بدلنے کی ایسی کوشش جو آئین کے متعین کردہ طریقہ کار کے برعکس ہو۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ پر حملہ کر کے حکومت کو گرانے کی کوشش سبورژن کے معنی میں شمار ہوگی۔ اسی طرح ججوں کی بلیک میلنگ کے ذریعے فیصلے کروانا بھی سبورژن کی تعریف میں آتی ہے۔ یاد رکھا جائے کہ پہلے دو جرائم یعنی منسوخی اور معطلی میں کاروبار ریاست واضح طور پر آئین کے مطابق نہیں چل رہا ہوتا جبکہ سبورژن میں بظاہر آئین نہ معطل ہوتا ہے اور نہ منسوخ لیکن کسی فرد یا گروہ کے طرز عمل اور فیصلوں کی وجہ سے آئین کے متعین کردہ مقاصد سے صریحاً روگردانی کی جاتی ہے۔

اس میں وہ سب افراد شامل ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے ملک کا آئینی نظام آئین کے مقرر کردہ اصولوں پر چلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہم نے ماضی قریب میں دیکھا ہے کہ کیسے کچھ جج حضرات نے خود کو ہر قسم کی جوابدہی سے بالاتر ہو کر ان اختیارات کو سلب کر لیا جو آئین نے واضح طور پر مقننہ اور انتظامیہ کے لئے مختص کر رکھے ہیں۔ ”سب ورژن“ یعنی پامالی کی اس سے زیادہ بہتر مثال کیا ہو سکتی ہے جو ہم نے ثاقب نثار کی مطلق العنانی کے دور میں دیکھی۔

سبورژن کی تازہ ترین مثال عمران خان کے زیر اثر وہ سازشی فیصلہ ہے جس کی وجہ سے آئین کا متعین کردہ طریقۂ کار ترک کر کے سارا اختیار سپیکر کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ اور ڈپٹی سپیکر نے آئین کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پوری اسمبلی اور آئین پر خود کش حملہ کر کے فاتحانہ قہقہہ ایسے لگایا جیسے یہ اسمبلی کی آئینی کارروائی نہیں بلکہ گیم آف تھرونز کی کوئی خونریز قسط ہو۔

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین نے آرٹیکل چھ کے ذریعے سنگین بغاوت کی تعریف بھی کردی اور سزا کا تعین بھی کر دیا لیکن اس آرٹیکل کے تحت عدالتی طریقۂ کار انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ یہاں بنیادی سقم یہ ہے کہ موجودہ طریقۂ کار نہ صرف سست روی پر مبنی ہے بلکہ اس کا سارا انحصار جج حضرات کے ذاتی رجحان پر ہے۔ چونکہ سنگین غداری والے مجرم طاقتور لوگ ہوتے ہیں اس لیے آرٹیکل چھ کی کارروائی کے لیے بھی دبنگ ججوں کی ضرورت ہے جن کی شدید قلت ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔

پھر مزید سقم یہ ہے کہ ایسے جج حضرات کو کیسے اس آرٹیکل کے دائرے میں لایا جائے جو خود سبورژن کا ارتکاب دیدہ دلیری کے ساتھ کرچکے ہوں۔ میری ادنی رائے تو یہ ہے کہ اگر سنگین بغاوت کے آرٹیکل کو سنجیدگی سے لینا ہے اور اس پر سخت عمل پیرا ہونے کو ضروری سمجھا جانا ہے تو ”سب ورژن“ سمیت آرٹیکل 6 کے تمام مقدمات کی ٹرائل ججوں کی بجائے ایک خصوصی جیوری کے ذریعے ہونی چاہیے۔ جو ایک مہینے میں فیصلہ کرنے کی پابند ہو۔

یہ جیوری سپریم کورٹ کے سینئیر ترین جج کی زیر صدارت قائم ہو اور اس میں اچھی شہرت رکھنے والے ریٹائرڈ جج، وکلا، صحافت، تعلیم اور مفاد عامہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوں۔ اگر یہ جیوری ملزم کو مجرم قرار دے تو اپیل کا فورم سپریم کورٹ کی بجائے پارلیمنٹ کو ہونا چاہیے کیونکہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ ہے اور وہی سنگین غداری کے مرتکب کسی مجرم کو حتمی سزا دے سکتی ہے۔

یقیناً میرے تجویز کردہ طریقۂ کار میں کافی عملی مشکلات موجود ہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے تو آئینی ترمیم درکار ہوگی اور پھر یہ سوال اٹھے گا کہ جیوری کے ممبران کا تعین کون کرے گا۔ مزید برآں موجودہ عدلیہ اپنی مطلق العنانی پر زنجیریں پہنانے کے عمل کو روکنے کی کوشش کرے گی۔ سوال پھر یہ ہے کہ عدلیہ کے احتساب کا کوئی بہتر حل اگر موجود ہے تو وہ کیا ہے جو عدلیہ کی خودمختاری اور مطلق العنانی کے مابین درست توازن پیدا کرسکے کیونکہ موجودہ صورتحال تو کسی طور تسلی بخش نہیں ہے۔

اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ صرف سپیکر اور عدلیہ کی ملی بھگت سے کوئی بھی حکومت آئین کے ساتھ ہر قسم کا کھلواڑ کر سکتی ہے۔ اور اس ہٹلرانہ طرز حکومت کی روک تھام کا کوئی متبادل بندوبست بھی نہیں۔ ایسی صورتحال میں دلیرانہ مقابلہ کر کے صرف عوامی طاقت کے ذریعے مطلق العنانوں کو مار بھگایا جا سکتا ہے۔ جیسے 2014 میں یوکرین میں دارالحکومت میں لاکھوں لوگ جمع ہوئے تو عوامی خواہشات کے برعکس فیصلہ کرنے والا صدر ملک سے بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔

ہمارے ہاں لیکن لوگ یا تو کرکٹ کا میچ دیکھنے کے لئے باہر نکلتے ہیں یا ناموس کے نعروں پر مرنے مارنے کے لئے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ خود آئین کے تحفظ کا ساماں کریں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ موجودہ امتحان میں دونوں سرخرو ہوتے ہیں یا مولوی تمیز الدین کی بے چین روح ایک دفعہ پھر بین کرتی سنائی دے گی۔

ڈاکٹر حیدر شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر حیدر شاہ

مصنف برطانیہ کی ہارٹفورڈ شائر یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور ریشنلسٹ سوسائٹی آف پاکستان کے بانی ہیں۔ ان سے hashah9@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

haider-shah has 14 posts and counting.See all posts by haider-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments