پاکستان، آسٹریلیا ٹی ٹوئنٹی میچ پر سمیع چوہدری کا تجزیہ:’ایسی ٹیم سلیکشن میں اتنا ہی ملے گا‘

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


پاکستان یہ میچ جیت کر اپنے مصروف سیزن کا اختتام اچھے نوٹ پر کرنا چاہتا تھا مگر وہ اپنی ہی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گیا۔

قذافی سٹیڈیم کی یہ پچ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے لیے مثالی وکٹ تھی۔ گیند کُھل کر بلے پر آ رہی تھی اور بلے بازوں کے لیے بازو کھولنا ہرچند دشوار نہیں تھا۔ یہاں 180 ایک مسابقتی مجموعہ ہو سکتا تھا۔

پاکستان نے شاید ساری پلاننگ ہی بابر اور رضوان کی ساجھے داری کے گرد بُن رکھی تھی، اسی لیے مڈل آرڈر میں تجربے اور اعتماد کے فقدان کا بھی کوئی مداوا نہ سوچا گیا کہ اگر اوپر کے تین بلے باز آخر تک نہ جا پائے تو پلان بی کیا ہو گا؟

سو، بابر کے شاندار آغاز کے باوجود جب محمد رضوان اور فخر زمان نے اوپر تلے اپنی وکٹیں گنوائیں تو اننگز کا شیرازہ ہی بکھر گیا۔ اور جب بابر بھی اننگز کی رفتار بدلنے کی کوشش میں زیمپا کا شکار ہو گئے تو پاکستانی اننگز کے لیے ڈیڑھ سو بھی بہت بڑا ہندسہ بن گیا۔

یہ بھی پڑھیے

واحد ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کو شکست: ’شکر ہے کچھ عرصہ بابر کو بولنگ نہیں کروانی پڑے گی‘

اگر فنچ بابر اور رضوان کا کوئی توڑ کر پائے تو۔۔۔

پاکستان کی آسٹریلیا کو شکست: ’منقسم کرنے والے وقت میں بابر اعظم اتحاد کا نشان بن گئے‘

اگرچہ عثمان قادر کے آخری چند وار پاکستان کو اس میچ میں مقابلے کے لیے واپس لے آئے۔ لیکن یہ تو بہرحال حقیقت ہے کہ اس پچ کے اعتبار سے یہ مجموعہ لگ بھگ بیس رنز کم تھا اور دوسری اننگز کی بولنگ بھلے کتنی ہی تگڑی کیوں نہ ہوتی، نصف شب کی اوس زدہ کنڈیشنز میں اس مجموعے کا دفاع ناممکن تھا۔

یہ ممکن ہو بھی سکتا تھا اگر پاکستان اپنا بہترین بولنگ اٹیک کھلاتا۔ اگرچہ حارث رؤف اور شاہین آفریدی نے اپنے اپنے تئیں میچ کو دلچسپ بنائے رکھا اور محمد وسیم کی کاوش نے تو آسٹریلوی اننگز کا مومینٹم ہی توڑ کر رکھ دیا۔

لیکن حسن علی کی بولنگ فارم یہاں بھی سوالیہ نشان بنی رہی۔ اور اس سے بڑا سوالیہ نشان یہ کہ ایسی فارم کے باوجود بابر اعظم انھیں ہر میچ کھلانے پر مُصر کیوں ہیں۔

فاسٹ بولرز جب ایسی گھمبیر چوٹوں کے بعد بحال ہو کر واپس میدان میں اُترتے ہیں تو یہ مینیجمنٹ کا فرض ہوتا ہے کہ ان کا ورک لوڈ کسی قاعدے سے سنبھالا جائے اور جسم کو مناسب آرام دیا جائے تاکہ انجری پھر سے نہ پلٹ آئے۔

مصباح کی کوچنگ میں تو ہمیں واقعی یہ کاوش نظر آئی کہ حسن علی کا بوجھ بہت طریقے سے سنبھالا جا رہا تھا اور یہ واضح طور پہ بتلا بھی دیا گیا تھا کہ انھیں ہر میچ کھیلنا ضروری نہیں ہے بلکہ جتنا بھی کھیل پائیں، بہترین کھیلیں۔

مگر یہاں عجیب قصہ ہے کہ فارم اور فٹنس سے ماورا بھی، ٹیم انتظامیہ انھیں ہر ممکن موقع پر کھلانے پر بضد ہے۔ اس ضد میں نقصان ٹیم اور کھلاڑی دونوں کا ہی ہو رہا ہے مگر زیادہ بڑا نقصان یقیناً حسن علی ہی اٹھا رہے ہیں۔

شاہین آفریدی نے انیسویں اوور میں جیسے آسٹریلوی اننگز کے طوطے اڑائے، وہاں یہ کاش بہت نمایاں تھا کہ کاش پاکستان نے پندرہ بیس رنز اور بنائے ہوتے تو آخری اوور میں دفاع کرنا ایسا مشکل نہ ہوتا۔ لیکن یہ مجموعہ تھا ہی اتنا قلیل کہ یہاں دفاع ناممکن تھا۔

یہ بہرحال پاکستانی کاوش کا کمال ہے کہ بالکل یکطرفہ میچ کو آخری لمحات میں نہایت کانٹے دار بنا ڈالا۔

آسٹریلیا کے لیے یہ دورہ مجموعی طور پہ مثبت اور ثمر بار رہا کہ تین سیریز میں سے دو اپنے نام کر لیں۔ پاکستان کے لیے بھی یہاں مثبت پہلو بہت سے ہیں۔ بس بات اتنی سی ہے کہ بہترین بلے باز کو اب بہترین کپتان بھی بن کر دکھانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments