ویل پلیڈ وسیم اکرم پلس


وہ مرد قلندر ایم پی کا انتخاب جیت چکا تھا اور ایک چارپائی پہ بیٹھا مقامی مسائل کے تانوں بانوں سے الجھ رہا تھا۔ سوچوں میں غرق کہ اپنے گھر میں بجلی نہیں، صاف پانی پینے کو نہیں، بڑے سکول جانا ہو تو شہر جانا پڑتا ہے، چلو بڑا سکول نہ ہو کوئی سڑک، چلو کارتول کی نہیں پکی اینٹوں والی سڑک ہی ہو۔ کوئی ڈسپنسری کہ صاف پانی نہ پینے کی وجہ سے پیٹ خراب ہوجاتا ہے۔ ٹیکہ شیکہ لگوانے میں آسانی ہو جائے۔

جو بھی بندہ اب وزیر اعلی بنے گا اس سے وقت لوں گا اور اس کو ساری مشکلات بتاؤں گا۔ چلو اتنی باتیں نہ مانے کوئی ایک آدھ تو منوا کے ہی اٹھوں گا۔ رمضان حلوائی کی دیسی گھی کی مٹھائی نئے وزیراعلی کے لئے لیتا جاؤں گا، میری نہ سہی جانے کی مٹھائی کا تو پاس کرے گا۔

کون نیا وزیراعلی بنے گا؟ مرد درویش سوچ میں تھا۔ ملتان والا سائیں قریشی تو الیکشن ہی ہار گیا ہے نہیں تو وہ پکا تھا۔ ویسے وہ ہوتا تو گوانڈی ہونے کا واسطہ دے کر کوئی کام نکلوا لیتا۔ علیم خان کا سنا ہے کافی پیسے والا ہے، شہری بابو ہے پتہ نہیں بات سنے گا یا نہیں۔ یہ ہاشم جواں بخت پتہ نہیں کتنا جوان ہے نام کے ساتھ جوان لگایا ہوا ہے۔ میانوالی کا سردار سبطین کھلا ڈلا بندہ ہے یا پرویز الہی صاحب۔ ان دونوں سے بات کرنا آسان ہو گا۔

پرویز صاحب کو یاد کر اؤں گا کہ مجھے آپ نے ٹکٹ دیا تھا اور میں تحصیل ناظم لگ گیا تھا۔ پرویز صاحب کو کم از کم اپنے گھر کی بجلی کا تو بولوں گا۔ بجلی کے لئے جب ناظم تھا اس وقت بھی واپڈا کے ایس ڈی او سے ملا تھا۔ وہ بھی تین گھنٹے اس کے برآمدے میں انتظار کے بعد ، ساتھ لائی جلیبیاں بھی ڈھیلی پڑ گئی تھیں۔ پھر بھی اسے کہا کہ کوئی لائٹ بتی لگا دو آخر کو میں بھی ناظم لگا ہوا ہوں۔ وہ طنزیہ مسکرایا تھا۔ پتہ نہیں اسے میری کس بات کا یقین نہیں آیا تھا اس دور میں بھی بجلی نہ ہونے کا یا ناظم ہونے کا ۔

لیکن مرد درویش کو کیا پتہ تھا کہ آسمانوں کے فیصلے بنی گالہ تک پہنچ چکے ہیں۔ اندھیری راتوں کی تپسیا سپھل ہو چکی۔ جن و انس متحرک ہوچکے اور وہ ہونے جا رہا جس کی توقع نہ شاہ محمود کو تھی نہ اسد عمر کو ۔ علیم خان کو اپنے آپ کو چٹکی کاٹنی پڑی، گورنر سرور کو بال نوچنے پڑے۔ پرویز الہی نے جب چوہدری شجاعت کو بتایا تو چوہدری صاحب پہلی دفعہ صاف لہجے میں بولے ”مٹی پاؤ لیکن اتنی بھی نہیں۔“ سب سے بڑھ کر جب مرد درویش کو جہانگیر ترین نے بتایا کہ آپ کو وزیر اعلی لگایا جا رہا ہے تو فورا اٹھ کھڑے ہوئے یہ کہتے ہوئے کہ ”کون بنے ہیں وزیراعلی؟ قدرت کتنی مہربان ہے میں رات ہی سوچ رہا تھا اور اب مجھے نئے وزیراعلی سے ملانے کے لئے لائن میں لگایا جا رہا ہے۔“

لیکن قدرت واقعی مہربان تھی بتایا گیا کہ لائن میں نہیں بلکہ آپ کو وزیراعلی لگایا جا ریا ہے۔ کہنے لگے ”قسمے؟ ہن میں نواں شہباز شریف لگساں؟ تسی مذاق چنگے کریندے او! ( اب میں نیا شہباز شریف بنوں گا؟ آپ مذاق اچھا کرتے ہیں ) ۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ خوشی خوشی اپنی بیگم کو فون پر بتایا۔ آگے سے جواب ملا کہ“ پہلے ہی آپ سے کہا تھا کہ آپ جدھر جا کے بیٹھتے ہیں ادھر سایہ ہے، فضل لوہار کی بیٹی بھی ادھر گئی تھی اس کے بعد سے بہکی بہکی باتیں کرتی ہے۔ فرمانے لگے سایہ تو سچ میں ہو گیا ہے لیکن بنی گالہ والوں کا ۔ اور ہاں کچھ بہکی بہکی باتیں یہ خبر سن کر اب دوسرے ضرور کر رہے ہیں۔

پھر جو ہوا تاریخ کا حصہ ہے۔ مرد درویش سردار عثمان بزدار آف تونسہ شریف ساڑھے تین سال شہباز شریف ہو کر اپنی پارٹی کے ارب پتیوں، باہر کے ڈگری یافتہ نوجوانوں، صنعت کاروں، پیروں، سرداروں، سیاست کے شناوروں اور اپنے سابقہ باس پرویزالہی کی چھاتی پہ مونگ دلتے رہے۔

وزیر اعلی ہاؤس میں بڑے بڑے ڈاکٹروں سے انہوں نے پوچھا کہ کرونا کاٹتا کیسے ہے؟ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر وزیراعظم سے ملنے آئے تو اسلام آباد کے قریب پہنچ کر پائلٹ کو حکم دیا کہ ادھر ٹھنڈ بہت ہے پنکھا بند نہیں ہو سکتا ؟ انگریز کو پہلی دفعہ قریب سے دیکھا تو سکتے کا شکار ہو گئے۔ شدید بارش میں لینڈ کروزر لے کر صبح صبح اکیلے نکل گئے۔ ایک دوست نے پوچھا کدھر گئے تھے کہنے لگے ”ٹی وی لگایا تو خبر آ رہی تھی لاہور کی سڑکیں سمندر کا منظر پیش کر رہی ہیں۔کراچی تو نہیں دیکھا لاہور میں وہی سہولت دستیاب تھی سوچا دیکھ آؤں“ ۔ آئی جی نے ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ آگے کیا تو بے نیازی سے گزر گئے۔ سیکرٹری نے توجہ دلائی تو کہنے لگے اس کی شکل واپڈا کے اس ایس ڈی او سے ملتی ہے جو میرے ناظم کہنے پہ مسکرایا تھا۔ جب مائنس بزدار کی بات ہوتی تو اسی ایس ڈی او کی طرح طنزیہ سا مسکراتے اور کہتے ”باس کہتے ہیں میں پلس ہوں وسیم اکرم پلس“ اور پھر وہی ہوا جب تک وسیم اکرم پلس رہا کپتان ڈٹا رہا اور جس دن کپتان نے اسے مائنس کیا تو پوری ٹیم ہی ڈھے گئی۔

آج کل مرد قلندر تونسے میں اسی چارپائی پہ بیٹھا بہکی بہکی سوچیں سوچتا رہتا ہے کہ کس طرح اگلی دفعہ زیادہ محنت کرنی ہے کیونکہ اس دفعہ وسیم اکرم پلس نہیں بلکہ عمران خان پلس بننا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments