درد دل سے درد محبوبہ اور ہم


علی الصبح آنکھ کھلی تو سب سے پہلے یونیفارم زیب تن کیا۔ پھر غسل خانہ کی جانب لپکے۔ ہمارے سکول کے زمانہ سے عادت ہے کہ پہلے یونیفارم پہنا جاتا پھر رفع حاجت کے لیے روانہ ہوا جاتا۔ منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر ہی رہے تھے کہ اچانک سینے میں بائیں جانب عجیب درد محسوس ہوا، اوپر کا سانس اوپر اور نیچے والا کہیں درمیان میں اٹک گیا۔ پھر کیا تھا کہ اپنی ہستی کو اپنی آنکھوں کے سامنے نیست و نابود ہوتا دیکھ کر مارے گھبراہٹ کے باہر کی جانب بھاگے۔ گلی میں آ کر بھی جب سانس پوری طرح بحال نہ ہوا تو وہیں لیٹ گئے تاکہ جان نکلتے وقت دھڑام کی سی آواز نہ نکلے اور جسم کو بھی زندگی کی آخری دو تین چوٹوں سے بچایا جا سکے۔

کچھ دیر تک تو آنکھیں بند ہی رہیں۔ کچھ پتا نہیں تھا کہ کون ہوں، کیا ہوں اور کس جگہ ہوں؟ آنکھیں کھولیں تو جیسے لگا کہ ہم اس جان فانی سے کوچ کر چکے ہیں اور حسب اعمال جنت کا کوئی تہہ خانہ ہمیں الاٹ کر دیا گیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے حالت ایسی ہے۔ سامنے دیکھتا ہوں کہ تین عورتیں چلی آ رہی ہیں۔ پھر آگے پیچھے نظر دوڑائی کہ باقی کی سڑسٹھ کہاں ہیں؟ رہنے کو تو جنت کا تہہ خانہ بھی چلے گا مگر اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔

بھئی، جب وعدہ ہی ستر کا ہے تو صرف تین کیوں؟ دنیا میں تین چار دوشیزاؤں کو جنھیں ہم نے اپنے عقد میں جکڑنے کی نظر سے دیکھا انھوں نے ہم سے نظریں ہی نہیں ملائیں اور جنھوں نے ہم سے نظریں ملانی چاہیں وہ ایسی تھیں کہ ہم نے نظریں جھکا لیں۔ ہم نے سوچا کہ کیوں اپنی نیت میں کھوٹ آئے۔ کم از کم جنت میں حوریں تو پکی کریں۔

مگر دیکھتے ہیں کہ جیسے جیسے تین عورتیں قریب آ رہی ہیں ان میں پاکستانی عورتوں کا عکس مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ اور یہ کیا یہ بوڑھی عورتیں؟ وعدہ تو دوشیزاؤں کا کیا گیا تھا۔ لیکن پھر ہم نے اس بات پر اکتفا کر لیا کہ کیا خبر تمام خوبصورت لڑکیاں مولوی اڑا لے گئے ہوں اور پیچھے جو سٹاک بچا ہو، اس میں ہمارے اعمال کے مطابق یہی بنتی ہوں۔ لیکن وہ مزید قریب آئیں تو پتا چلا کہ یہ پاکستانی عورتیں ہی ہیں اور وہ بھی پکی دیسی نوعیت کی۔

یہ دیکھ کر ہم نے سوچا کہ ان سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں دوزخ میں ہی کوئی ٹھنڈا کونہ الاٹ کر دیا جائے۔ وہی پڑے رہیں گے۔ کسی کو نہیں ستائیں گے۔ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ پاؤں سے پکڑ کر کسی نے زور دار جھٹکا دیا اور ساتھ کہا کہ زین بھائی آپ ٹھیک ہے نا۔ یہ ہمارا چھوٹا کزن علیان تھا۔ اب جا کر کہیں ہمیں معلوم پڑا کہ ہم تو بھئی اب تک دنیا میں ہی ہیں۔ ایک بات کی خوشی بھی ہوئی کہ کچھ عرصے کی مہلت مل گئی ہیں، اب ڈٹ کر دنیا کی ہی حوریں کو ستائیں گے اور ایک بات کا دکھ بھی ہوا کہ کہیں جنت میں ہمارے پہنچتے پہنچتے ساری حوریں باقی نیک لوگ کہیں اڑا نہ لے جائیں۔

خیر طبیعت کچھ بحال ہوئی تو کالج جانے کا سوچا کہ وہاں جائیں گے تو مردود دوستوں سے مل کر طبیعت کچھ مزید بہتر ہو جائے گی۔ اوپر سے کالج میں دوشیزائیں دیکھ کر ویسے بھی مرا ہوا انسان بھی زندہ ہو جاتا ہے۔ ہمیں تو بس دل کا عارضہ ہے۔ دوشیزاؤں کے درمیان میں بیٹھ کر دو لیکچرز لیے تو افاقہ ہوا۔ لیکن پھر سوچا کہ کیوں نا آج ہی چیک اپ کروا لیا جائے کہ صبح کو ہمارے ساتھ یہ کیا معاملہ ہوا تھا۔ کیوں کہ کافی سارے ایسے بڑے کام ہیں جو ابھی ہمارے ان کنوارے ہاتھوں سے سر زد ہونے باقی ہیں اس لیے خود کو بچانا خود پر بلکہ اس دنیا کے رہنے والوں پر بھی احسان کرنا ہے۔ کالج سے چھٹی ہمیں بارہ بجے ہی لینی پڑی، کیوں کہ پاکستانی ڈاکٹر حضرات نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں دن میں صرف دو تین گھنٹوں سے زیادہ کام نہیں کرنا۔ کہیں ساری پاکستانی شفا یاب ہی نہ ہو جائیں۔ پھر ہمارے پاس ان چند گھنٹوں میں مصروفیت کے لیے کوئی کام نہیں ہو گا۔

چھٹی لے کر جا ہی رہے تھے کہ رستے میں استاد محترم مبشر سے ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے جلد چھٹی کی وجہ طلب کی تو سارا ماجرا سنایا کہ دل کا عارضہ لگتا ہے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ جلد ہی کوئی خوبصورت لڑکی دیکھ کر دل اس کے حوالے کر دیا جائے۔ یہ تمہارے سینے میں ہو گا اور نہ اسے تکلیف ہوگی۔ عرض کیا کہ ”جناب! مشورہ مفید ہے، عمل کرنے کا سوچا جا سکتا ہے۔“

خیر جلد ہی ہسپتال پہنچے اور اس ڈاکٹر کا کمرہ ڈھونڈنا شروع کیا جو دل کے معاملات دیکھتا ہے۔ پرچی کٹوا کر وہاں پہنچے تو ڈاکٹر صاحب کے پاس رش کم ہی تھا۔ کیوں کہ جنھیں واقعی دل کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے وہ یہاں کم ہی پہنچ پاتے ہیں اور جو پہنچ پاتے ہیں انھیں دل کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ ایک بندے اور ایک بندی کے بعد ہمارا نمبر آ گیا۔ سٹول پر بیٹھے تو ڈاکٹر صاحب متوجہ ہوئے سو ہوئے مگر ساتھ دو خوبصورت لیڈی ڈاکٹرز بھی ہمیں دیکھنے لگیں۔ ہم نے سوچا کہ اگر دل کا مسئلہ نہیں بھی ہے تو آج بن ہی جائے۔

ڈاکٹر صاحب نے حال دریافت کیا، پوچھ گچھ کی اور ہم نے اداکاری کرتے ہوئے عرض کیا کہ جب صبح کالج جانے لگے تو یہاں اس طرف شدید درد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ تم آخر کالج جاتے ہی کیوں ہو؟ اور پھر ہنستے ہوئے انھوں نے مزید یہ کہا کہ لوگ تو کالج جا کر دل کے مسائل میں مبتلا ہوتے ہیں اور تم کالج جانے سے قبل ہی دل کا عارضہ کرا بیٹھے ہو۔

ہم نے کہا ڈاکٹر صاحب دل کا درد ہو گا شاید، معاملہ سنگین لگتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بیٹا اگر دل کا درد ہوتا تو تم یہاں نہ ہوتے۔ وہ بندہ بڑا خوش نصیب ہوتا ہے جسے دل کا عارضہ بھی ہوتا ہے اور ہم تک پہنچ پاتا ہے۔ ساتھ بیٹھی لیڈی ڈاکٹر کہنے لگیں کہ سر مجھے تو درد دل کم اور درد محبوبہ زیادہ لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس بات پر ہنسنے لگے اور کہا کہ بیٹا تمہیں کچھ بھی نہیں بس بعض دفعہ معدے کی گیس کی وجہ سے یہاں درد ابھرتا ہے۔ لگتا یوں ہی ہے کہ دل کا درد ہے اور بندہ گیا۔ اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ رائزک لو ٹھیک ہو جاؤ گے۔

میں اب وارڈ سے باہر نکل رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ اگر یہ واقعی درد محبوبہ ہوا تو کون سی محبوبہ کی وجہ سے ہوا؟ اگلے دن کالج جا کر قریب کی کچھ لڑکیوں کو بغور دیکھا، جن سے ہمارے لب و کنار ہونے کا اندیشہ تھا تو معلوم پڑا کہ یہ واقعی معدے کا مسئلہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments