کاغذ کی ردی


مبارک ہو عزیز ہم وطنو! ہم نے ایک بہت بڑی عالمی سازش کو بالآخر بے نقاب اور ناکام کر دیا۔ ہماری واحد نجات دہندہ شخصیت جناب وزیراعظم صاحب ایسی اعلی پائے کی سیاسی بصارت رکھتے ہیں جس نے واقعتاً ناہنجار اور ناعاقبت اندیش مخالفین کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ چنے بھی لوہے کے!

بچپن سے مطالعہ پاکستان میں ایک دستاویز کا ذکر پڑھتے آئے ہیں معذرت کے ساتھ اس کو بڑے احترام سے ”ٓآئین پاکستان“ کہا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ اس دستاویز کی کاپیاں ماضی کی ”غیرآئینی طاقتیں“ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا کرتی تھیں۔ آج کل بھی اس کی کوئی خاص ویلیو نہیں ہے۔ خیر ہمیں کیا۔ ایک کاپی پھینک بھی دی گئی تو نئی کروا لی جائے گی۔ نہ ہی میں قانون دان ہوں نہ ہی آئین پاکستان سے مکمل واقفیت ہے بس یہ ہی سنا تھا کہ لوگ اپنے اقتدار کی ہوس کو جاری رکھنے کے لئے ایسے دستاویز کو ردی کی نظر کرتے ہیں اور پھر عدالتی نظام اس کی تشریح پر چند ہفتے یا مہینے ضائع کرتے ہیں۔ لہذا مجھے اس سے نہ ہی کوئی لگاؤ ہے نہ ہی کوئی پرواہ۔

جب ریاست مدینہ کا ذکر ہوتا ہے تو کم از کم جھوٹ اور فریب کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ کم از کم اس بات کا کھلم کھلا اعتراف کرنا چاہیے کہ اس دستاویز کی حیثیت کسی بھی اقتدار میں آئے شخص کے لئے وہاں تک ہی ہے جہاں تک اس کا ذاتی فائدہ ہے۔

لیکن صرف ایک سوال جو میرے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ تہہ دل سے سوچیں یہاں کس حکمران کو عوام کا خیال ہے۔ کسی کو اقتدار بچانے کے لئے مخالفین پر الزام تراشی، جھوٹ سچ کے پلندے، رشوت، لالچ ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں تو دوسری سمت مخالفین کو بھی اسی طرز کی حرکات کرتے ہوئے۔

جب امیرالمومنین کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس بات کا اندازہ حکومت میں آ کر بخوبی لگا لیا جاتا ہے کہ عام انسان کی پہنچ سے دو وقت کی روٹی دور ہو گئی ہے تو یقین مانیے جو شخص اقتدار میں بیٹھا ہے وہ ذمہ دار ہے! اس میں دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن یہاں ہوتا کیا ہے؟ یہاں پر وہ ہی ہوتا ہے جو پچھلے کئی ہفتوں سے ہم تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ریچھ اور بندر کا ناچ! دونوں ایک دوسرے کو زیر کرنے کے چکر میں ہیں۔ کس لئے؟ محض اس کرسی کے لئے جو ”ٓآئین پاکستان“ کے ستونوں پر کھڑی ہے اور بعد میں ان ہی ستونوں کو اپنی پسند کے مطابق ”پنکچر“ لگا لیا جاتا ہے۔

انسان، جیتے جاگتے انسان جن سے ہر طرح کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ جن کو نوے ایام میں ”ٹھیک معیشت“ ملنی تھی، جن کو ایک سو کروڑ نوکریاں ملنی تھیں۔ جو ایک ارب کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں جیسے ہی ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ ہوتا ہے۔ وہ جو قرضوں کے بوجھ تھے۔ جو کرپشن اور رشوت خوری کے بازار ہر سرکاری عمارت میں قائم ہیں۔ تعلیم پر جو نام نہاد سکالر شپس آتے تھے آج اس سے بھی گئے ہیں۔ ان سب زمینی حقائق پر موجود زمین پر رینگتے ہوئے انسانوں پر آہنی کرسی رکھتے ہوئے اگر کوئی شخص پھر سے دعوی کرے کہ اب کی بار وہ سب ٹھیک ہو جائے گا جو پچھلی بار مزید خراب ہوا ہے۔ تو معذرت کے ساتھ۔ ہماری قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے۔

بحیثیت پاکستانی میرا خیال ہے کہ اب حکمرانوں کی طرف دیکھنے کے بجائے خود کی طرف دیکھنا شروع کر دیں۔ ہماری اپنی عادات و اطوار ایسی ہیں کہ ہم کسی بھی کامیابی کے حصول کے لئے محنت کے بجائے سہل پسندی اور شارٹ کٹس کے راستے دیکھتے ہیں۔ ہمیں اپنے قانون اور آئین کو بھی پڑھنا ہو گا اور اپنی قومی ذمہ داریوں کو بھی نبھانا ہو گا۔ اگر نوکریاں نہیں ہیں تو یہ طے کر لیں کہ وہ ملنی بھی نہیں ہیں لہذا خود کو کسی ہنر کی سمت میں ڈالیں۔

ہمارے ہاں دروغ گوئی اور مخالفین کو کافر اور خود کو مسلمان اور سچا انسان سمجھنے کی جو روش نکل پڑی ہے اس کو صرف حکمرانوں کی حد تک ہی رہنے دیں۔ یہ دلوں کے حال اللہ اور اس کے فرشتے ہم سے بہتر جانتے ہیں ہمیں صرف اگلے انسان کی پریشانی دور کرنے کی فکر ہونی چاہیے اس کو جج کرنے کی نہیں۔ ہم اگر اتنی ہی کوشش کر لیں تو کم از کم جس ڈپریشن میں ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے اس کو کسی حد تک بہتر کر سکیں گے۔ باقی رہے اقتدار اور حکمرانوں کے حالات۔ تو یہ نہیں سدھرنے کے!

نوٹ! جس کو اختلاف ہے بالکل اختلاف رکھے! یہ میری رائے ہے اس سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments