دانستہ پیدا کردہ آئینی بحران


پاکستان اپنے قیام سے سوچ و فکر میں بے ایمان ٹولوں کے شکنجے میں جکڑا رہا ہے، مسئلہ مالی بد عنوانی کا نہ پہلے کبھی تھا نہ اب ہے، مالی بدعنوانی ایک ناسور ضرور ہے لیکن یہ ناسور سوچ و فکر میں بے ایمانی کی ضمنی پیداوار ہے۔ سوچ و فکر کی بے ایمانی سے چھٹکارا کے حصول کی کوشش کے بجائے ملکی اقتدار پر ناجائز قبضہ جاری رکھنے کی خاطر مالی بد عنوانی کا ڈھنڈورا پیٹنا اسی سوچ و فکر کی بے ایمانی کا منبع ہے۔

جس سوچے سمجھے منصوبے اور دیدہ دلیری کے ساتھ گزشتہ چند روز سے فکری بے ایمانی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ ملک میں ہر طرف پھیلی بدحالی کا سبب جاننے کے لیے کافی ہے، موجودہ گمبھیر صورتحال میں سابقہ ادوار کی طرح عدلیہ بھی بظاہر آئین میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتی نظر آ رہی ہے، اس خوفناک آئینی بحران پر فوری قدم اٹھا کر ڈھائی سال سے اسٹے آرڈر کے مصنوعی تنفس پر موجود ڈپٹی اسپیکر کے غیر قانونی اور غیر آئینی قدم کو کالعدم قرار دینے کے بجائے سماعت کے لیے نوٹسز کی لمبی فہرست جاری کرنا، 63 A کی تشریح کی درخواست جو اب غیر موثر ہو چکی ہے کے لیے سماعت رکھنا موجودہ غیر آئینی صورتحال کو طول دے سکتی ہے، بے ایمان سوچ و فکر کی خطرناک بیماری میں مبتلا حلقوں نے قومی اسمبلی کے بعد اپنی ذہنی کیفیت کا مظاہرہ پنجاب اسمبلی میں بھی شروع کر دیا ہے۔

اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر سوچنے کی اہلیت سے عاری شخص نے اپنی ذاتی خواہش پر ملک و قوم کو ترجیح دیتے ہوئے ایک بے ضرر مراسلے کو ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دے کر ایسا بحران کھڑا کر دیا ہے جس پر ساری دنیا ہنس رہی ہے۔

معاشی بدحالی کے ساتھ موجودہ آئینی خلفشار جس میں ملک بغیر کسی حکومت کے فضا میں معلق ہے عدلیہ کو پابند کرتا ہے کہ کم اہمیت کے معاملات پر موجودہ بحران کے کیس کو ترجیح دے تاکہ ملک کو فوری طور پر ممکنہ انارکی کی صورتحال سے محفوظ رکھا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments