عدم اعتماد پر دھواں دار بحث


چوتھے روز بھی عدالت عظمٰی میں عدم اعتماد کیس پر دھواں دار بحث ہوئی۔ حکومتی وکیل بابر اعوان اور علی ظفر نے دلائل کے نام پر ججوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے معزز ججوں نے ان سے چبھتے ہوئے سوالات کیے۔ بعض موقعوں پر حکومتی وکلا بالکل لاجواب اور بے بس دکھائے دیے۔ جب بابر اعوان نے عدالت میں سیاسی اور جذباتی تقریر کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں، قانونی نکات تک محدود رہیں۔

بابر اعوان سپریم کورٹ کے منجھے ہوئے اور تجربہ کار وکیل ہیں۔ اس سے قبل سوئس حکومت کو زرداری کی مبینہ دولت کے حوالے سے خط نہ لکھنے کے معاملے کو لٹکانے پر یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمٰی کھا چکے ہیں۔ حکومتی وکیل علی ظفر کو بھی ججز کی طرف سے مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ تیسرے حکومتی وکیل نعیم بخاری اپنے دلائل کل دیں گے۔ اس کے بعد اٹارنی جنرل بھی دلائل دیں گے۔ راقم کو نہیں لگتا کہ کل بھی اس کیس کا فیصلہ ہو۔

اس لحاظ سے حکومت کی حکمت عملی کامیاب جا رہی ہے کہ وہ تقریباً ایک ہفتے کا وقت گزار چکی ہے۔ اس دوران مقتدرہ سے بیک ڈور رابطے کر کے کسی نہ کسی طرح اس کیس میں سرخرو ہونا چاہتی ہے۔ اگر عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو پارلیمان کا استحقاق قرار دے دے اور تمام پارٹیوں کو نئے الیکشن میں جانے کا کہہ دے تو یہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

اس سے قبل اپوزیشن کی طرف سے دو معروف وکلا نے دلائل دیے۔ مخدوم علی محمد خان اور سندھ بار ایسوسی ایشن کے نامور وکیل صلاح الدین نے اپنے قانونی نکات سے تہلکہ مچا دیا۔ موٴخرالذکر نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ دنیا کی تاریخ میں فاشزم پر مبنی اس طرح کا واقعہ اس سے قبل ہٹلر کے جرمنی میں رونما ہوا تھا جہاں ایک مرحلے پر نازی پارٹی نے مخالفین پر کمیونسٹوں کا ساتھی اور غداری کا الزام لگا کر ووٹ کی حرمت کو روند ڈالا تھا۔

عمران خان کی حکومت نے جدید جمہوری تاریخ میں دوسری بار یہ سیاہ کارنامہ انجام دیا اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس کھلی آئین شکنی اور غیر جمہوری رویے پر فخر و انبساط کا اظہار بھی کر رہی ہے۔

اگر سپیکر کے استدلال کو مان لیا جائے تو کل کسی حکومت کا سپیکر اسی طرح کی کسی قرارداد پر جناب عمران خان کے خلاف یہ رولنگ دے دے کہ موصوف ڈاکو، غدار، آئین شکن اور آرٹیکل سکس کے مجرم ہیں، تو کیا عدالت اس رولنگ کو من و عن تسلیم کر لے گی؟

بلاول بھٹو نے بالکل درست کہا کہ جس آئین شکنی کا جرم چند سیکنڈز میں کیا گیا اس کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ بھی چند سیکنڈز میں آ جانا چاہیے تھا۔ ملک گزشتہ کئی دن سے بغیر حکومت اور وزیراعظم کے چل رہا ہے۔ بدترین آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے مگر معزز عدلیہ کے جج صاحبان فیصلہ دینے میں تاخیر کر رہے ہیں۔ اکثر ماہرین قانون کا استدلال ہے کہ آئین کی شق نمبر 69 پارلیمان کی پروسیجر کی غلطیوں سے صرف نظر کرتی ہے، یہاں تو کھلی آئین شکنی کی گئی ہے۔

یہ آئین شکنی بھی اس ڈپٹی اسپیکر نے وزیراعظم کی ہدایت پر کی جو چار سال سے سپریم کورٹ کے حکم امتناع پر چل رہا ہے۔ دریں اثنا ملک کی سو معزز اور ممتاز شخصیات نے چیف جسٹس صاحب کے نام خط لکھ کر ان کی توجہ حکومتی آئین شکنی اور ملک میں پھیلی غیر یقینی صورت حال کی طرف مبذول کروائی گئی۔ معزز شہریوں نے سپریم کورٹ سے گزارش کی کہ وہ جلد سے جلد آئین شکنی کے جرم کے خلاف تاریخی فیصلہ دے کر جمہوریت کے پودے کو مرجھانے سے بچا لیں۔ اگر حکومت کے اس غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کے خلاف بروقت اور بھرپور فیصلہ نہ دیا تو ملک میں بڑے پیمانے پر بد امنی اور انارکی پھیل سکتی ہے جو غیر جمہوری قوت کی مہم جوئی پر منتج ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments