کپتان کی مجلس شوریٰ


کیا ہوا گر دشمنوں کے خلاف کفر و غداری کا بیانیہ بار آور ثابت نہ ہوسکا۔ لیکن انہیں علم نہیں کہ میں لوگوں کو کس کس طرح سے رلا سکتا ہوں۔ کچھ ناہنجاروں نے تو ہمارے بارے میں اک بے ہودہ کہاوت، شامت اعمال ما با صورت کپتاں گرفت، بھی گھڑ رکھی ہے۔ وہ کیا جانیں کہ قوم کے نوجوان میری مٹھی میں ہیں۔ ہم نے اپنی شخصیت، حسن بیان اور وژن ان کے خون میں شامل کر دیا ہے اور وہ ہر دم، یا شیخ الجبال کہنے کو تیار ہیں۔ یہ سب ہم نے اپنے روحانی آقا، حسن بن صباح، سے سیکھا ہے۔ پھر کپتان اپنے مشیروں کو مخاطب کر کے کہتا ہے،

یہ سیاہ ست کا پرانا کھیل، یہ بہتان دوں

ساکنان تخت و کرسی کی تمناؤں کا خوں
میری بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کار ساز

جس نے ان کا نام رکھا تھا جماعت ”قاف“ و نوں
میں نے دکھلائے وطن کو سینکڑوں خوابوں پہ خواب

میں نے توڑا کار و بار و کار خانوں کا فسوں
کون کر سکتا ہے اب اس آتش نفرت کو کم

جس کے ہنگاموں میں ہو کپتان کا سوز دروں
کاش ہوجاتا میسر فیض کا وہ فیض خاص

کون کر سکتا تھا پھر کپتانیت کو سر نگوں

پہلی مشیر

اس کے بعد کپتان کی اپنی مشیر اعظم اور تیسری قانونی مجازی بندی کپتان کو باور کراتی ہے کہ بے شک آپ ہینڈ سم اور اپدیشک سہی، پر میری روحانی جدوجہد کے بغیر کامیابی ممکن نہ تھی۔ میں نے ریاست مدینہ کے قیام کی خاطر اپنے خاوند حقیقی کے بلیدان سے بھی دریغ نہ کیا۔ بطور مشیر اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا۔

اس میں کیا شک ہے کہ محکم تھا یہ روحانی نظام

پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہیں ازل سے بے وقوفوں کے مقدر میں سراب

گالیاں، دھرنے و فتنے اور اودھم پر ہنگام
یہ ہمارے جادو ٹونوں کی کرامت ہے کہ آج

سب ہوئے روحینیت و نرگسیت کے غلام
طبع عامہ کے لیے موزوں یہی افیون ہے

ورنہ اس بھنگ سے نہیں کچھ کم تیرا علم الکلام

مشیر سعید

میرے آقا، بندہ ناچیز نے آپ کی غلامی میں بہت تکالیف اٹھائیں اور بہتان سہے۔ مگر میرے قدم کبھی بھی نہ ڈگمگائے۔ میں نے آپ کی ہدایت پر قوم کو وہ تارے بھی توڑ کر لانے کے فریب دے ڈالے جن کا تاحال وجود بھی نہیں ہے۔ مشیر سعید اپنے غم کچھ ایسے بیان کرتا ہے۔

وہ حسینہ بے مروت، وہ ریحام بد نصاب

نیست دانشور و لیکن در بغل گندی کتاب
روح کپتانی میں باقی رہ گیا یہ اضطراب

کر نہیں پایا عدو کا تو مکمل احتساب
اس سے بڑھ کر اور کیا، حزب مخالف کا فساد

تیرے بندوں نے ہی توڑی تیرے خیموں کی طناب
پھر بھی لرزاں شورش خطبہ سے ہیں بست و کشاد

ہو چلے بد مست لاکھوں سن کے آقا کے خطاب

صدارتی خطبہ

آخر میں کپتان اپنے صدارتی خطبے میں قوم کو مزید تقسیم کرنے اور نفرتیں پھیلانے کے عمل کو تیز کرنے کا عہد کرتا ہے۔ اپنے مشیروں کو وطن کے لئے پہلے سے زیادہ خطرناک ہونے کی تلقین کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ،

دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے فساد حق سبھی

میں نے جب گرما دیا اپنے حشیشوں کا لہو
جہل و دانش، مر دو زن، صنف میاں، پیر و جواں

سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو
ہے یہی بہتر، وطن آفات میں الجھا رہے
کفر و غداری کی تاویلات میں الجھا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments