عفت نوید کی ”دیپ جلتے رہے“ بچیوں کو جہیز میں دی جائے


ارے بھئی مبالغے والی کوئی بات نہیں۔ بہشتی زیور جیسے ہدایت ناموں والے زمانے تو لدلدا گئے ہیں۔ وقت آگے نکل گیا ہے۔ اب نوجوانوں نے محبتیں تو کرنی ہیں اور شادیاں بھی۔ مسلکی اختلاف، سماجی اور معاشرتی مسائل سبھوں سے ان کا واسطہ پڑنا ہے تو وقت اور ماحول کے پیش نظر ہدایت ناموں کی بھی تو ضرورت ہے جو جوڑوں کو گھر ٹوٹنے، بچوں کی دربدری، کورٹ کچہریوں کے جھنجھٹ سے دور رہنے کا درس دیں۔ زندگی میں تھوڑے سے صبر و ضبط اور افہام و تفہیم کے سبق کا پڑھنا بھی تو ازدواجی زندگی کی بہت سی بیماریوں کا علاج ہے۔ کتاب میں سارے نسخے موجود ہیں۔ مگر اب مرنا یہ ہے کہ کتاب اردو میں ہے۔ چلو مڈل کلاس تو اس سے گزارہ کرہی لے گی۔ مگر ایلیٹ اور نو دولتئیے کی کلاس کے لیے بھی اس کا انگریزی نسخہ ضروری ہے۔ تو اگر کوئی صاحب علم اِس نئی نسل کے لیے متفکر ہے تو پھر بھئی اس نیک کام میں دیری نہیں ہونی چاہیے۔

آئیے اب ذرا کتاب کی طرف چلتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میر احمد نوید احساس کی اتھاہ گہرائیوں والا بڑا شاعر ہے۔ یہ اور بات ہے مقدر اور بخت کا ہلکا ہے۔ عصر حاضر کے عزت، شہرت، دولت، بہترین جاب کے ساتھ ساتھ اثرورسوخ، تعلقات بنانے، جائز و ناجائز حربوں سے پیسہ اور آسائشیں حاصل کرنے والوں سے مختلف انسان ہے۔

یہ کیسی عجیب سی بات ہے کہ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے عفت کی زندگی کے بہت سے پہلووں کی بڑے ادیبوں سے مماثلت محسوس ہوئی۔ ”در نیم وا“ احمد نوید کی شاعری کا مجموعہ جس کی تقریب رونمائی دونوں کے درمیان ملاقات کا سبب تھی۔ کتاب عفت کو دیتے ہوئے اُس نے اظہار کردیا تھا۔

سنو اِن جاگتی آنکھوں کی ویرانی مجھے دے دو۔

میں اپنے پاس رکھ لوں گا یہ ویرانی مجھے دے دو

دوستو وسکی اور اینا کے درمیان بھی اُس کا ناول The Gamblerوجہ ملاقات تھی۔ اینا نے Gamblerکو چھبیس دنوں میں ٹائپ کیا تھا۔ اختتام پر اُسے محسوس ہوا تھا کہ وہ تو اِس لڑکی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔

عفت بھی کیسی جی دار لڑکی تھی۔ شیعہ سنی والا معاملہ تو رہا ایک طرف لڑکا کماتا وکماتا بھی کچھ نہیں۔ نروس بریک ڈاﺅن کا مریض ہے۔ ہاتھوں میں رعشہ ہے۔ نوید کا بڑا بھائی اُسے سمجھا رہا ہے کہ اُسے غلط آدمی سے شادی نہیں کرنی چاہیے۔

دلیر لڑکی جو مشکل پسند تھی نے خود سے کہا۔ ”نہیں بھئی اچھا لگا ہے مجھے یہ شادی تو ہوگی اب۔ “ بعینہٰ اس طرح جیسے دوستووسکی مرگی کا مریض ہے۔ معاشی مصائب کا شکار اور قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے جیسے حالات جان کر اینانے خود سے کہا تھا۔

”نہیں یہ انسان مجھے بے حد عزیز ہوچکا ہے۔ میرا انکار اُسے دکھی کر دے گا۔ “

اب شادی کے لیے ٹکا پیسہ پاس نہیں، بری، زیور، ولیمہ سب مشکل مرحلے۔ اب عفت کیا کہتی ہے ذرا پڑھئیے۔ پاپا خیر پور میں ہیں۔ انہیں کیا پتہ تمہاری نوکری ہے یا نہیں۔ ہاں زیور ویور کی خیر صلا۔ چاندی کے کسی سیٹ پر سونے کا پانی پھروا لینا۔

اور اسی مشکل کا سامنا دوستووسکی کررہا تھا۔ پندرہ فروری بیاہ کا دن۔ دلہن کا ویڈنگ ڈریس اور ویڈنگ پارٹی۔

عفت کی طرح سمجھدار اینا نے بھی یہ مسئلہ۔ ”ارے بھئی فکر مت کرو میں سلائی کڑھائی کی ماہرہوں بنالوں گی ڈریس۔ کپڑا میرے پاس ہے۔ “استقبالیہ دعوت میں ہی اینا کو دولہا سنبھالنا پڑ گیا۔ مرگی کا دورہ پڑ گیا تھا اُسے۔ پہلے ہی دن اُسے اپنی بانہوں میں سمیٹنے اور اس کے دکھ بانٹنے کا کام اُسے ساری زندگی کرنا پڑا۔

دلہن بنی عفت بیڈ پر بیٹھی ہے جب احمد اندر آئے۔ دروازے پر دستک ہوئی کسی نے ایک گلاس پانی اور چار پانچ گولیاں اسکی ہتھیلی پر رکھیں۔ اُسنے ساری گولیاں پانی کے ساتھ حلق میں اتار لیں۔

عفت کے حوصلے کی جی کھول کر داد دینی پڑتی ہے۔ نئی نویلی دلہن اس کی بیماری کو عملی طور پر دیکھتی ہے اور مزے سے سہاگ رات مناتی ہے۔

لیجئیے ایک سمجھ دارلڑکی کی طرح صبح کا ناشتہ ساس کے ساتھ ہوتا ہے اور ساس دو پولتھن کے لفافے تحفے کے طور پر دیتے ہوئے کہتی ہےں۔ ”انہیں میں نے سنبھالا تھا اب تمہارے حوالے کر رہی ہوں۔ ان کا جو کرنا ہے کر لینا۔ “

عفت مڑے تڑے کاغذات کو ہاتھ سے سیدھا کرتی ہے۔ کسی میں مہناز کی آنکھوں کی تعریف، کسی میں مہناز کا ہی نفرت نامہ۔ کسی دھندلائے ہوئے کاغذ پر پہلی محبت کا نوحہ جو اب عفت کی آنکھوں کو نم کر رہا ہے۔

اب بھلا مجھے روسی ادب کا دیو ٹالسٹائی اور اس کی بیوی صوفیہ بہرز کیوں نہ یاد آتے۔ وہ آئے۔ شادی کے فوراً بعد ٹالسٹائی صوفیہ کو اپنی ڈائریاں دیتا ہے جن میں اس کے عشق کی داستانیں ہیں۔

ذرا عفت اور صوفیہ کی جگہ خود کو رکھ کر فیصلہ کریں۔ امنگوں اور آرزوں سے بھری دلہنوں کے ساتھ یہ سب ہوتا ہے تو جذبات کا کیا عالم ہوگا؟احمد نوید شکل کا حسین اور خوبصورت شاعر یعنی ایک کریلا اس پر نیم چڑھا۔ نئی نئی شہرت کی طالب شاعرات اور شاعری سے شغف رکھنے والی خواتین کا محبوب۔ ایسے میں جب جب کسی نے عفت کو اس کے خوش قسمت ہونے کا کہا۔ اُس کے جذبات کی من و عن وہی کیفیت ہوتی جو صوفیہ محسوس کرتی تھی جب کسی محفل میں اُسے کوئی کہتا” تم کتنی خوش قسمت ہو۔ تمہارا شوہر جینئس ہے۔ “اس کا اندر کبھی کبھی اس کے چہرے پر رقم ہو جاتا تب وہ سنتی۔ تم کتنی ناشکری عورت ہو۔

ہاں مگر جب وہ کبھی دوستووسکی، ولادی میر نبوکوو Nabokov اور ولیم فوکنر جیسے بڑے لوگوں کی آرا پڑھتی کہ جو ٹالسٹائی کو جادوئی اثر رکھنے والا ناول نگار کہتے تب کچھ دیر کے لیے وہ اپنا غم بھول جاتی۔ عفت بھی تو اس کی شاعری سے اس سے محبت کرنے والی تھی کہ جب ایک دفعہ ایک لڑکے نے ہر دل عزیز شاعر کے طور پر احمد نوید کا نام لیا عفت خوشی سے پھولے نہ سمائی۔ اس کا اندر یہ بتانے کے لیے مچل اٹھا تھا کہ وہ اس کی بیوی ہے۔

عفت بس مجھے تمہیں سیلوٹ مارنا ہے کہ تم نسائیت کا مان ہو۔ تم جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود محض بچت کی خاطر دائی سے کیس کروانے میں اپنی زندگی کو داﺅ پر لگا دیتی ہو۔ سکولوں، کالجوں کی نوکریاں، بسوں کی خجل خواریاں سب کے ساتھ احمد کے انجکشن، بیماری، بے روزگاری جیسے مسائل میں اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے مسرت کشید کرنے اور خود کو توانا رکھنے کی کاوشوں میں کتنی عظیم لگتی ہو۔

آج کے اس جھوٹے اور منافق زدہ معاشرے میں تم نے جس بے رحمی سے قلم جسے تیز دھار والے گنڈاسے اپنے چانے اتارے ہیں اپنے اندر کو چیر کر باہر لائی ہو۔ اتنے کڑوے سچ بولے ہیں کہ رشک آیا ہے۔ فخر محسوس کیا ہے۔ تم نے گھر ٹوٹنے نہیں دیا۔ محبت کا بھرم رکھا۔ بچوں کو باپ کے پیار سے محروم نہیں کیا۔ سرخرو ہو آج۔

عفت میری آنکھیں گیلی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments