سپریم کورٹ کاتاریخ ساز فیصلہ


چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ جو جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل تھا کی جانب سے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ پر وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کرنے اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس آج نو اپریل کو طلب کرنے کے متفقہ فیصلے کو تمام مکاتب فکر کی جانب سے وطن عزیز کو سیاسی اور آئینی بحران سے نکالنے پر اعلیٰ عدلیہ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے سے عدالت عظمیٰ جہاں ماضی کے بعض ”متنازعہ فیصلوں“ کے داغ دھونے میں کامیاب ہوئی ہے وہاں اس آزادانہ فیصلے سے نہ صرف اندرون پاکستان بلکہ بیرونی دنیا میں بھی عدلیہ کا وقار اور مرتبہ بلند ہوا ہے۔

سیاسی اور آئینی امور کے ماہرین کا اس تاریخ ساز فیصلے پر کہنا ہے کہ ازخود نوٹس پر آنے والے اس فیصلے پر عمران خان حکومت کی جانب سے اب زیادہ سے زیادہ نظر ثانی کی ایک درخواست دائر کی جا سکتی ہے لیکن اگر ماضی کے مثالوں کو سامنے رکھا جائے تو نظر ثانی کی درخواستوں میں بھی پرانے فیصلے بدلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں لہٰذا اولاً تو توقع ہے کہ حکومت یہ واضح اور دو ٹوک فیصلہ آنے کے بعد دوبارہ اپنی سبکی نہیں کرانا چاہے گی اور اگر بالفرض اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر بھی کی جاتی ہے تو اس کا بظاہر وقت کے ضیاع کا اور کوئی فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔

البتہ یہاں یہ سوال اہم ہے کہ اس فیصلے کے پاکستان کی مستقبل کی سیاسی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو سپریم کورٹ کی جانب سے درست قرار دے دیا جاتا تو پارلیمان کے اندر مکمل نظام سپیکر کے تابع ہو جاتا، سپیکر ڈکٹیٹر بن جاتا اور پورے پارلیمانی نظام اور پارلیمان کا ہی وجود بے معنی ہو کر رہ جاتا جس سے ملک کا پورا آئینی نظام متزلزل ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب ناصرف وزیراعظم عمران خان بحال ہو گئے ہیں بلکہ ان کی کابینہ بھی بحال ہو گئی ہے اور پارلیمان میں معاملہ دوبارہ وہیں سے شروع ہو گیا ہے جہاں سے اس تنازعے نے جنم لیا تھا یعنی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف طے شدہ آئینی ضابطے کے تحت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی۔ نئے حالات جو دراصل 31 مارچ کی صورتحال ہی کا تسلسل ہیں کے دوران اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو پاتی تو ان کے پاس باقی ماندہ مدت کے لیے وزیر اعظم رہنے کا آئینی حق اب بھی موجود ہے البتہ کامیابی کے بعد اگر وہ بطور وزیر اعظم صدر مملکت کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دیتے ہیں تو یہ ان کا قانونی حق تسلیم کیا جائے گا اور ایسے میں قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی اور اس پھر اپوزیشن سمیت کسی کو بھی اعتراض کا حق نہیں ہو گا۔

بصورت دیگر اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر عمران خان وزیراعظم نہیں رہیں گے اور ایوان ایک نئے وزیراعظم یا قائد ایوان کا انتخاب کرے گا جس کا واضح ذکر عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے میں موجود ہے۔ عدم اعتماد میں کامیابی کی صورت میں نیا منتخب ہونے والا کوئی عبوری وزیراعظم نہیں ہو گا بلکہ مکمل اختیارات کے ساتھ با اختیار قائد ایوان ہو گا جو قومی اسمبلی کی بقیہ مدت تک وزیراعظم رہ سکتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ خود اسمبلی تحلیل کر دے اور مشاورت سے نئے انتخابات کا اعلان کر دے۔

اس بحث سے قطع نظر کہ آئندہ باقی رہنے والی آئینی مدت کے لیے عمران خان یا پھر اپوزیشن حکومت بناتے ہیں حالیہ فیصلے کا سب سے قابل اطمینان پہلو یہ ہے کہ اس تاریخی فیصلے سے نہ صرف جمہوریت مضبوط ہوگی بلکہ اس سے نظریہ ضرورت ہمیشہ کے لیے دفن ہو کر آئین کی بالا دستی کی ایک نئی تاریخ ساز روایت بھی قائم ہونے کی راہ ہموار ہوگی۔ اسی طرح اس فیصلے سے یہ توقع بھی بے جا نہیں ہے کہ یہ فیصلہ صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ قومی اور معاشی عدم استحکام کے خاتمے میں بھی مددگار ثابت ہو گا اور ملک میں اس صورتحال سے جو غیریقینی حالات پیدا ہو گئے تھے وہ بھی انشاء اللہ جلد معمول پر آ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments