انصاف کی فراہمی میں تاخیر، مجرم کو فائدہ پہنچاتی ہے


اسلام میں سزا اور جزا کا بہت ہی جامع نظام موجود ہے، جو ہمیشہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں معاون و مددگار رہتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں بھی ان اسلامی قوانین پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا، جس کے نتائج وہاں پر مختلف النوع جرائم کی تعداد میں اضافہ کی صورت میں نمودار ہو جاتے ہیں۔ بظاہر یہ قوانین بہت سخت اور بعض لوگوں کو انسانیت سوز نظر آسکتے ہیں، مگر تاریخ اور تجربہ گواہ ہے کہ اگر ان پر قرآن و سنت کے مطابق عمل درآمد کیا جائے تو یہ سراسر انسانیت کے فائدے کے لئے ہیں بلکہ تعمیر معاشرہ اور بنیادی کردار سازی میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

گزشتہ دنوں انڈونیشیا ء سے ایک خبر نے چونکا دیا، خبر کچھ یوں تھی کہ وہاں موجود بچیوں کے ایک رہائشی مدرسہ کے مہتمم نے درجن سے زائد نوعمر بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، یہ گھناؤنا عمل قریب چھ سال جاری رہا، وہ گیارہ سے تیرہ سال کی بچیوں کو ڈرا کر یا زبردستی بے آبرو کرتا رہا، معاملہ کچھ یوں ہوا کہ ایک بچی جب چھٹیوں پر گھر آئی تو اس کی حالت ٹھیک نہ تھی جب اسے ہسپتال لے کر جایا گیا تو اس نے ایک بچے کو جنم دیا، والدین بہت پریشان ہوئے اور ہمت کر کے پولیس میں رپورٹ کی، مہتمم صاحب کو گرفتار کر لیا گیا اور تفتیش شروع ہوئی، تفتیش کے نتیجہ میں بہت ہی دردناک حقائق سامنے آئے جن میں نو ( 9 ) کم عمر بچیوں کے ہاں بچوں کی ولادت کا پتہ چلا، اس کے بعد کیس پبلک کر دیا گیا، لہذا بہت سے اور لوگ جو پہلے خاموش تھے سامنے آ گئے اور مہتمم کے خلاف شکایات درج کرائیں۔

عدالت نے مہتمم کو عمر قید کی سزا سنائی ان کی تمام جائیداد ضبط کرلی گئی اور ان مظلوم بچیوں کو معاوضہ اور علاج معالجہ کی سہولت فراہم کی گئیں۔ مگر عوام اس فیصلے سے مطمئن نہ تھے، لہذا احتجاج شروع ہو گیا کہ اس شخص کو موت کی سزا دی جائے، عدالت نے کیس کو دوبارہ سے جانچا اور مجرم جس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا تھا موت کی سزا سنا دی۔ بہت ممکن ہے کہ چند انسانی حقوق کی تنظیموں کو یہ ایک ظالمانہ اور انسانیت سوز فیصلہ لگے مگر جرم کی ماہیت کو بطریق احسن جانچنے کے بعد ہی عدالت اس نتیجہ تک پہنچ سکی کہ واقعی یہ شخص موت کی سزا کا ہی حقدار ہے، اس نے درجن بھر بچیوں کی زندگیاں تباہ کر دیں ان کو جسمانی، روحانی اور نفسیاتی طور پر مجروح کرتا رہا، جس کا زخم شاید ساری زندگی بھرنے والا نہیں ہے۔ اسلام بھی ایسے شخص کے لئے رجم یعنی سنگسار کیے جانے کی سزا تجویز کرتا ہے۔ جو سراسر عین فطرت کے مطابق ہے، اور اس قسم کے بھیانک جرائم کی بیخ کنی میں زبردست معاون ثابت ہوتا ہے۔

اس تناظر میں اگر ہم اپنے اردگرد نگاہ ڈالیں تو صورتحال نہایت ہی گمبھیر اور تکلیف دہ ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں ہر روز تقریباً گیا رہ ( 11 ) زنا بالجبر کے واقعات رونما ہونے کے اعداد و شمار موجود ہیں، یہ اعداد معاشرہ میں پنپتے ہوئے اس ناسور کی نشاندہی کرتا نظر آتے ہیں، مگر اس کا مناسب علاج نہ ہونے کے سبب یہ ملک کے طول و عرض میں بہت تیزی سے پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کیسز دیر سے شروع ہوتے ہیں، اور اتنے لمبے عرصہ تک چلتے ہیں کہ غریب مظلوم تو زندہ درگور ہو جاتا ہے۔

ساتھ ساتھ فیصلہ مظلوم کے حق میں آنے کے امکانات بھی بہت کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے جو اپنی جگہ ایک بہت ہی تکلیف دہ بات ہے۔ معاشرہ میں مظلوم کی الگ جگ ہنسائی ہوتی ہے، جو ایک الگ المیہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ چار سال میں چودہ ہزار ( 14,000 ) خواتین اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ جو اس قبیح جرم کے معاشرے میں تیزی سے بڑھنے کی شرح کی کھلی نشاندہی ہے۔

امر استعجاب یہ ہے کہ عمومی طور پر اتنے سنگین ترین معاملات سے نہایت ہی لاپرواہی اور غیر توجہی سے نمٹا جاتا ہے، جیسے موٹر وے پر ہونے والے اجتماعی زیادتی کے کیس میں جس میں کہ بچوں کے سامنے ماں کو بے آبرو کیا گیا یہ سوال بھی اٹھتا رہا کہ اتنی رات گئے اکیلی خاتون موٹر وے پر کیوں سفر کر رہی تھی، اگر یہ مان لیا جائے کہ اس عورت کا دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں تو اسے چاہیے کہ وہ خود کو قید کر لے اور گھر سے باہر نہ نکلے ورنہ وہی ہونا بنتا ہے جو ہوا، افسوس صد افسوس ہمارے ہاں اس حوالے میں ایک اور المیہ ہے کہ عمومی یہ سمجھا جاتا ہے کہ جنسی زیادتی کیس میں سراسر غلطی عورت کی ہی ہوگی۔ کیونکہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھی، یا اس نے کپڑے ایسے پہنے ہوئے تھے جو نامناسب تھے، اور لوگوں کے جذبات میں ہیجان کا سبب بن رہے تھے۔ اس طرح کی بہت ساری مثالیں پیش کردی جاتی ہیں۔ جن کا قانون اور انصاف کی فراہمی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔

پاکستان میں جنسی زیادتی کا شکار کوئی بھی کہیں بھی بن سکتا ہے، مرد، عورت، بچے بچیاں یکساں طور پر اس کا شکار ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر مفتی عزیز کا اپنے طالب علم کے ساتھ مستقل زیادتی کرنا، عثمان مرزا کا نوجوان جوڑے کے ساتھ انتہائی گندا سلوک کرنا جس میں لڑکی کے کپڑے پھاڑ کر اسے لوگوں کے سامنے برہنہ کر دینا، نور مقدم قتل کیس اور ایسے بہت سے کیسز ہیں، جو عدالت میں ہیں اور جن کے نتائج مثبت آ بھی رہے ہیں، مگر عمومی طور پر ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کے جرائم کا شور بہت اٹھتا ہے مگر کچھ دن بعد وہ منظر سے بالکل ہی غائب ہو جاتے ہیں اور آخر کار مجرم ناکافی ثبوت کی بنیاد پر چھوٹ جاتے ہیں،

یہ سب کچھ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں مگر بنیادی وجہ جلد انصاف کا میسر نہ ہونا اور مناسب سزاؤں کا بروقت اطلاق نہ ہونا ہے۔ ہمارے ہاں تو ہر طرح کی برائی کا سکہ چلتا ہے، کہیں تعلقات، کہیں اثر رسوخ تو کہیں دباؤ اور دھمکیاں مجبور کو مجبور ترین بنا دیتے ہیں۔ اور وہ کبھی بھی انصاف حاصل نہیں کر پاتے۔ ان حالات و واقعات کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے کیسز کو فوری سنا جائے، فیصلے قانون کے مطابق فوری کیے جائیں، مظلوم کی داد رسی کی جائے اور اسے تنہا نہ ہونے دیا جائے۔ سزا کا اطلاق بلاتفریق سب پر یکساں اور فوری کیا جائے، وحشیانہ اور ہولناک جرائم کی مثالی سزائیں دی جانی چاہئیں جو سرعام ہوں جو سب کے لئے باعث عبرت ہوں تاکہ اس طرح کے قبیح جرائم کی بیخ کنی میں مدد گار ثابت ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments