روداد سفر حصہ 15


دو ہزار آٹھ میں میری شادی ہوئی۔ میری بیوی کا تعلق چائنا کے صوبے گانسو ( Gansu ) سے تھا۔ یہ نن شاہ ( Ning xia ) کے مسلمان علاقے سے متصل ہے اور اس کا مرکزی شہر لانزو ( Lanzhou ) ہے۔ اس صوبے میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ میری بیوی کام کے سلسلے میں ایوو ( yiwu ) شہر میں مقیم تھی اور ہول سیل مارکیٹ میں کسی جیولری کی شاپ پر کام کرتی تھی۔ ان کے علاقے میں بھی کچھ ایسے گاؤں ہیں جہاں ( Hui ) مسلمان آباد ہیں۔ اور یہ ( Hui ) کے معنی کو جانتی تھی۔ ان کا علاقہ ان علاقوں میں شامل تھا جہاں کسی دور میں مسلم اور غیر مسلم کی آپس میں لڑائیاں ہوتی رہی تھیں۔ یوں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان علاقوں میں ایک دوسرے کے خلاف دل میں نفرت پائی جاتی تھی۔ ہو سکتا ہے اس کا اظہار وہ زبان سے نہ کرتے ہوں۔

ہمارا نکاح صوبہ یونان ( Yunnan ) جو ویتنام کے بارڈر کے ساتھ ہے، سے تعلق رکھنے والے ایک مولوی صاحب نے پڑھایا۔ جن کے گھر نکاح ہوا وہ بھی یونان ( Yunnan ) صوبے سے تعلق رکھنے والی تھیں اور ہمارے ساتھ ہی ان کے بھائی کا ایک نومسلم جو کوئچو ( Guizhou ) صوبے سے تعلق رکھتی تھی میمونہ، ان کا نکاح ہوا۔ یہ سارے لوگ ایوو ( yiwu ) شہر میں کام کے سلسلے میں مقیم تھے۔ اس دوسری نو مسلم میمونہ سے میں نے پوچھا کہ آپ کے مسلمان ہونے کی کہانی کیا ہے تو اس نے بتایا کہ ان کا ایک کلاس فیلو مسلمان تھا جو اسے بہت پسند تھا جس کی وجہ سے اس نے اسلام کو پڑھنے کے لیے ایک مدرسے کا رخ کیا اور وہیں سے عربی بھی سیکھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس لڑکی میمونہ سے شادی کے لیے اس پہلے لڑکے کے گھر والے جو نسلی مسلمان تھے راضی نہیں ہوئے۔ اور وہ پھر کام کاج کو ڈھونڈتے ایوو ( yiwu ) آ گئی کہ یہاں عرب آفس میں عربی مترجم کی جاب مل جائے گی۔

ابھی جس سے نکاح ہو رہا تھا یعنی میمونہ کا شوہر بکنگ والی ٹیکسی چلاتا تھا اور میمونہ اپنے آفس کے کسٹمرز کے لیے اور خود دوسرے علاقوں کی فیکٹریوں میں مال چیک کرنے آرڈر بک کرنے کے لیے اس کی گاڑی بک کرتی تھی۔ یہیں سے ان کی بات چیت آگے بڑھی۔

شادی کے وقت میمونہ کی نند نے میری بیوی کو پہنے کے لیے ایک سکارف دیا اور اسے پہنایا۔ اس کے بعد میری بیوی نے خود ہی سکارف کا گھر میں ڈھیر لگا دیا۔ ہمارا ان لوگوں سے رابطہ ایک لمبے عرصے تک رہا۔

نکاح پڑھانے والے اور یہ گھر والے بھی پرانے دیوبندی تھے اور کٹر تبلیغی۔ نکاح خوان نے مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ حق مہر کتنا ہے بلکہ میرے کہنے پر صرف اتنا جواب دیا کہ وہ تم لوگ پہلے ہی آپس میں طہ کر چکے ہو گے۔ اور یہ بھی کہا کہ میں زیادہ جانتا ہوں۔ خیر یہ لوگ پتہ نہیں کیوں یہ میری بیوی کو پسند نہیں آئے سوائے اس نو مسلم میمونہ کے جو اس کے لمبے عرصے تک بہت اچھی دوست رہی اور ہمارے گھر اکثر آتی جاتی تھی۔

یہ نسلی مسلمانوں سے دوسرا تعارف تھا میری بیوی کا۔ پہلا تعارف میں تھا۔ میں نے کبھی کوئی بات اسلام کے متعلق کبھی اپنی بیوی سے خود زبردستی نہیں کی۔ میں نماز پڑھتا اور وہ پہلے بیٹھ کر مجھے دیکھتی رہتی پھر اس نے مجھ سے تھوڑی تھوڑی کر کے خود ہی سیکھنے کی ابتداء کی۔ سکارف کے اسے وہ وہ سٹائل آتے تھے جو میں بھی دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ اس نے خود ہی اپنا میل جول نسلی مسلمانوں سے بڑھایا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ اسے نسلی مسلمانوں میں مجھے سمیت کوئی پسند نہ آیا۔

لیکن وہ خود شوق سے نماز بھی سیکھتی اور اپنے لیے خود ہی کپڑے پوری آستینوں والے سلیکٹ کرتی تھی۔ مجھے کبھی بھی یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ وہ کیا پہن سکتی ہے کیا نہیں۔ اس نے مجھے سے پاکستانی کھانا پکانا سیکھا اور پھر ماہر ہو گئی۔ ہمارے گھر میں اس کی مرضی چائنیز کھانا پکائے یا پاکستانی۔ دونوں ہی بہرحال بہت شوق سے بناتی تھی۔ جیسے جیسے اس کے روابط نسلی مسلمانوں سے بڑھتے گئے ویسے ویسے اس پر اکتاہٹ طاری ہوتی گئی۔ بہرحال میں بھی جہاں ضروری سمجھتا جواب دے دیتا ورنہ خاموشی سے سن لیتا۔ اس وقت تک میرا اپنا بھی مطالعہ صرف مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب تک محدود تھا۔

یہ میرا تجربہ ہے اور میں یہ بات دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ جب تک آپ غیر مسلم یا نو مسلم کے ساتھ نہیں رہتے نہ آپ کو اپنے دین کی سمجھ آ سکتی ہے اور نہ اسلام کو آپ دلائل سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم کیونکہ روایتی مسلمان ہیں اس لیے بہت سی باتیں ہمارے لیے قابل توجہ ہی نہیں ہوتیں۔ لیکن نان مسلم یا نو مسلم جس نے باہر کھڑے ہو کر جائزہ لینا ہوتا ہے وہ ایک ایک چیز کو نوٹ بھی کر رہا ہوتا ہے اور اسے دلائل بھی فراہم کر رہا ہوتا ہے۔

کیونکہ اس نے اپنے ذہن میں عقائد و نظریات کا ایک نیا سٹرکچر کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ اور جو نظریات یا عقائد اس کے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں جنہیں اس نے اپنی زندگی کے شروع سے لے کر اس وقت تک تعمیر کیا ہوتا ہے اسے اس نے گرانا بھی ہوتا ہے۔ اس گرانے کے عمل کے دوران وہ نئے اور پرانے موجود نظریات و عقائد کا تقابلی جائزہ بھی لے رہا ہوتا ہے۔ یہ بہت مشکل اور تکلیف دہ کام ہوتا ہے۔ کیونکہ ان نئے نظریات کے مطابق ہی اس نے خود اپنا، اپنے گھر والوں کا اور معاشرے کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ جو اس نئی شخصیت کو کیسے قبول کرتے ہیں یہ الگ مسئلہ ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ جنگ ہر وقت اس کے ذہن میں جاری رہتی ہے۔

اس میں شاید سب سے بڑا مسئلہ اس نو مسلم کے گھر میں پیش آتا ہے جن لوگوں کے ساتھ اس نے زندگی گزاری ہوتی ہے اور جو اس کے لیے سہارا ہوتے ہیں۔ پھر وہ خود اپنے لیے اپنے گھر والوں اپنے دوست احباب جاننے والوں کے لیے ایک تعارف بھی ہوتا ہے اور اسے سب سے زیادہ اس سوال کا سامنا پڑتا ہے کہ اس نے اپنے آبائی مذہب و نظریات کو کس بنیاد پر ترک کیا ہے اور نئے کو کس بنیاد پر قبول کیا ہے۔ یہ امتحان سوال و جواب کا اسے ہر روز پیش آتا ہے اور مختلف شکلوں اور مختلف لوگوں سے۔

یعنی وہ خود نہ بھی چاہے لیکن اسے مجبوراً خود کو ہر لحاظ سے اپ ٹو ڈیٹ ( up to date ) رکھنا پڑتا ہے۔ یوں سمجھ لیں یہ امتحان اسے ہر روز اور لمبے عرصے تک پیش رہتا ہے۔ اس لیے اس کے سوالات بھی وہ ہوتے ہیں جو ہم روایتی مسلمانوں نے کبھی سوچے بھی نہ ہوں۔ اسی لیے ہمارے علماء بھی اس امتحان میں فیل ہی ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کا مطالعہ صرف اور صرف اپنے معاشرے ماحول اور پہلے سے موجود مسلمانوں کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ یا یہ آپس ہی میں تیتر بٹیر لڑا رہے ہوتے ہیں۔

اگر اس کے اشکالات کو دور نہ کیا جائے اور اسے سہارا نہ دیا جائے تو یہ معاشرے میں دوبارہ گم ہو جاتے ہیں۔ اور خاص کر غیر مسلم سوسائٹی میں نو مسلم ایک بالکل ہی اجنبی بن جاتا ہے اور اس سوسائٹی سے ان میچ ( un match ) ۔ اس کے لیے بہت حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو باہر سے کبھی حکم نہیں دینے چاہیں بلکہ انہیں خود اپنے ماحول میں اپنی تدبیر سے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کو سراہنا چاہے اور کمپنی دینی چاہیے۔

یہ معاملہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب اس نو مسلم کا شوہر یا بیوی پہلے سے مسلم ہو۔ اب اس نو مسلم کو خود اپنا ہی نہیں بلکہ اپنے لائف پارٹنر کے بھی ہر عمل کی وضاحت دوسروں سے کرنی پڑتی ہے۔ بلکہ اسے اس بات کی بھی وضاحت کرنی پڑتی ہے اور دلائل دینے پڑتے ہیں کہ اس نے یہ مسلمان پارٹنر کیوں چنا۔

مذہب تبدیل کرنا، نیا مذہب اختیار کرنا، دنیا کا سب سے مشکل کام ہے، انسان کی پوری شخصیت، انسان کے باطن اور خارج کی ساری دنیا، سب کچھ اجنبی ہو جاتا ہے۔ بغیر کسی بڑی وجہ کے، بغیر کسی مضبوط دلیل کے اتنی بڑی قربانی دینا آسان نہیں ہوتا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہم نسلی مسلمان، اس ماحول سے صدیوں کے فاصلے پر ہیں جو ماحول ایک نومسلم کو ملتا ہے، اور پھر بھی اچھل اچھل کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، لیکن یہ سروے کسی نے شاید ہی کیا ہو کہ ان لوگوں میں سے کتنے لوگ ہیں جو واپس اسی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں، جہاں سے آئے ہوتے ہیں۔ کسی غیر مسلم کو کلمہ پڑھانے اور دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے بعد بات ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اصل مسائل تو اس کے بعد شروع ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments