تماشہ برگد کی چھاؤں تلے


ڈیئر پروفیسر، سلام

سنا ہے کہ غالب بڑا الہامی شاعر تھا۔ قریباً ڈیڑھ صدی گزر جانے کے بعد بھی اس کا کلام آج تک تازہ اور زبان زد عام ہے۔ کوئی بھی موضوع ہو کوئی نا کوئی شعر نکل ہی آتا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ہمیں شاعری سے شغف ہے تو بات شاعر سے ہی شروع ہو گی۔ یہاں اردو کی کتابیں نہیں ملتیں اور اگر ملتی بھی ہیں تو بڑی مشکل سے ملتی ہیں۔ آج سے گیارہ سال پہلے جو چند کتابیں ہم اپنے ساتھ لائے تھے ان میں سے ایک دیوان غالب بھی ہے۔

یوں تو پسند اپنی اپنی ہوتی ہے مگر کلام وہی آفاقی نوعیت کا ہوتا ہے جو سیدھا دل میں اتر جائے اور جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو۔ اگر وہ کلام ابھی تک پڑھا جا رہا ہے اور وہ موجودہ زمانے کے حالات سے مطابقت بھی رکھتا ہے تو یقیناً کوئی بات تو ہوگی۔

ہم جیسے نو آموز ایسا دعویٰ ہرگز نہیں کر سکتے کہ ہم کلی طور پر اسے سمجھ پائے ہیں یہ تو وہی بات ہوئی کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ کل تمام دن کے شور و غوغا سے لبریز تماشے کو جھیلتے جھیلتے جب دم الٹنے لگا تو گھبرا کر دیوان غالب نکالا کہ تڑختے ہوئے اعصاب کو کچھ تو سکون ملے پر ہائے ری قسمت کہ اس شعر پہ نظر پڑ گئی یعنی وہ ہمارے دل کا نوحہ تو برسوں پہلے ہی لکھ گئے ہیں۔

کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

چند اور اوراق پلٹے تو آج کا منظر نامہ بمعہ سیاق و سباق سامنے آ گیا۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے یہاں روز تماشا مرے آگے

پروفیسر ڈیئر ہم وطن سے دور بیٹھے ہجر کے مارے لوگ اپنے گھروندوں میں ایسی کھڑکیاں ضرور بناتے ہیں جو ہماری جنم بھومی کے گلی کوچوں میں کھلتی ہیں۔ یہاں بیٹھے بیٹھے ہم اپنی اداس نظروں سے سارے تماشے دیکھتے رہتے ہیں اور کڑھتے رہتے ہیں۔ سنتے کان اور کھلی آنکھیں جو کچھ ان دنوں دیکھ رہی ہیں وہ کچھ ایسا نیا بھی نہیں ہے تو پھر طبیعت اتنی مکدر کیوں ہے؟ یہ تماشا تو ہم برسوں سے دیکھتے چلے آئے ہیں۔ اور دیکھتے دیکھتے احساس کی دولت کب ہماری پھٹی جیبوں سے باہر گر گئی ہمیں پتہ ہی نہ چلا۔ بڑے سے بڑا سانحہ ہو جائے اب کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ کان پہ جوں رینگتی ہے، کان کھجایا اور پھر وہی غفلت کی نیند۔ جب قوموں کا ضمیر مردہ ہو جائے تو کیا ان کا وجود باقی رہتا ہے؟ یہ سوال ہمیں دن رات ستاتا ہے۔

ہر بار ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کشتی گرداب سے نکل چکی ہے تو یہ دل خوش فہم بنا سوچے سمجھے یقین کر لیتا ہے۔ ابھی ہماری تالیوں کی گونج ختم بھی نہیں ہو پاتی کہ پتہ چلتا ہے کہ نہیں ہم تو اب تک بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ چپو چلاتے چلاتے ہاتھ شل ہو چکے مگر پیروں میں بندھے بھنور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے کا ڈر ہماری نیندیں چرا لیتا ہے۔ خواب میں ایک ہجوم نظر آتا ہے جو کسی منزل بے نشاں کے پیچھے مختلف سمتوں میں بگٹٹ بھاگ رہا ہے۔ انہیں یکجا کرنے والا کوئی نہیں۔ کوئی اپنا مفاد پس پشت ڈالنے کو تیار ہی نہیں، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟ کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے۔

برگد کا وہ پیڑ جو ہماری پیدائش سے پہلے نجانے کس بد بخت مالی نے یہ کہہ کر لگایا تھا کہ یہ چھاؤں دے گا۔ وہ اب تناور درخت بن چکا ہے۔ چھاؤں تو کیا ملتی اس نے تو ساری زمین پہ قبضہ کر لیا اور مزید پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ اس کی جڑیں زمین میں اتنی گہری ہو چکیں ہیں اور شاخیں اتنی دور تک پھیل چکیں ہیں کہ اسے اکھیڑنا ہم جیسے ناتواؤں کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اور تو اور اس نے پھل دار درختوں کو بھی نگلنا شروع کر دیا ہے۔ اب تو کوئی ٹارنیڈو ہی اسے اکھاڑے تو اکھاڑے یہ چھوٹی موٹی آندھیاں اس کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گی۔

یہ نازک دل طوفانوں سے ڈرتا ہے۔ طوفان کسی کی پرواہ نہیں کرتا اپنے راستے میں آنے والی ہر شہ کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ ان آنکھوں نے بہت سا خون خرابا دیکھا ہے۔ قدرتی آفات اور جنگیں بھی دیکھیں ہیں۔ سرحدوں کو ٹوٹتے اور تاریخ کی آنکھوں سے شہروں کو ڈوبتے بھی دیکھا ہے۔ یہ اتنی پرانی بات تو نہیں کہ ذہن سے محو ہو جائے۔ آپا دھاپی بٹوارے کا سبب بنتی ہے مگر ہم اب بھی ان ہی راہوں کے راہی ہیں کیا ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا؟

افسوس کہ جواب نفی میں ہے۔ پروفیسر آج کے صاحب عالم نے تو گزرے وقتوں کے بادشاہوں کی طرح اپنی مرضی کی تاریخ مرتب کروانے لگے ہیں۔ زمین ضمیر فروشوں سے کل بھی بھری تھی اور آج بھی ہے بس دام اچھے ہونے چاہییں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ کیسے بھول گئے کہ تاریخ تو وقت مرتب کرتا ہے اور اس کی بے رحم آنکھ کسی کے گناہوں کی پردہ پوشی نہیں کرتی۔

اس برگد کے پیڑ کے نیچے بہت سی بے نامی قبریں ہیں۔ وہ کون تھے جو رات کے اندھیرے میں کسی عقوبت خانے سے لا کر چپکے سے دفن کر دیے گئے۔ آیا بے گناہ تھے یا گناہگار اس کا فیصلہ تو کوئی عدالت کرتی ہے مگر کیس تو کہیں پیش ہی نہیں ہوا تو پھر کس قاضی نے ان کی فائل پہ موت لکھ کر اپنا قلم توڑ دیا؟ وہ لاوارث تو نہیں تھے کہ ان کے مردہ جسموں کو اندھیری قبروں میں گاڑ دیا جاتا۔ چشم تصور جب ان کے وارثین کو دہائیاں دیتے دیکھتی ہے تو دل کٹ کے رہ جاتا ہے۔ ان کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہیں۔ از خود نوٹس لینے والی عدالتیں بھی چپ سادھے رہتی ہیں۔ تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کی ہڈیاں رات کے اندھیروں میں چلا چلا کر فریاد کرتی ہیں کہ

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

اب ایسے کلام کو کوئی الہامی نہ کہے تو کیا کہے؟ مصطفیٰ زیدی کو گزرے بھی مدت ہوئی مگر ان کے قاتل کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا کسی کو کچھ خبر نہیں۔ اب تو اس فائل پہ وقت کی اتنی دھول جم چکی ہے کہ اس کے حروف بھی مٹ چکے ہوں گے۔ کون جانے کہ ہے بھی یا دیگر محکماتی ریکارڈز کے ساتھ وہ بھی جل کر خاکستر ہو گئی۔ پر یہ شعر ذہن کے پردے سے ایسا چپکا ہے کہ ہم انہیں بھول نہیں پاتے۔

انسانی جان جام سفال تو نہیں ہے کہ اور بازار سے لے آئیں گے گر ٹوٹ گیا۔ لیجیے غالب یہاں بھی آن ٹپکے جام کا ذکر چھڑے اور وہ نہ آئیں یہ ہو نہیں سکتا۔ بات غالب سے چھڑی تھی اور مصطفیٰ زیدی تک آن پہنچی مگر ٹھہریئے بات تو تماشے کی ہو رہی تھی۔ کٹھ پتلیوں کے اس تماشے کی کہانی اس قدر گنجلک ہو چکی ہے کہ سوچتے سوچتے دماغ کی چولیں ہل جاتی ہیں۔ بہت شاطر دماغ پایا ہے اس کے ماسٹر مائنڈ نے۔ ان حالات میں ہم کیا بیاں کریں حکایت دل کہ دل قابو میں کہاں؟ پر ایک اور بھی الہامی شاعر ہے جس نے اس سارے منظر نامے کو بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔ آج کا خط اس کے کلام پہ بند کرتی ہوں کہ اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں بچتی۔ آپ بھی حظ اٹھائیے۔

والسلام
غزالہ

بکھر جائیں گے ہم، کیا جب تماشا ختم ہو گا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا
چراغ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو ہوا سے کہہ گئی ہے
اب تماشا ختم ہو گا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
(افتخار عارف)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments