ریاست کے آئین اور مفاد سے اونچی انا اور عالمی سازش کا چاک پردہ۔۔۔(1)


بھلے وقتوں میں کسی دور گاؤں میں میراثیوں کا خاندان جا آباد ہوا۔ گاؤں کے چوہدری نے مسافروں کے لئے بنائے اپنے بہت سے مہمان خانوں میں سے ایک میراثیوں کے خاندان کو بلا معاوضہ رہنے کے لئے دے دیا۔ میراثی خاندان کا سربراہ شدید علیل ہوا اور قریب المرگ ہو گیا۔ حالت نزع کی وجہ سے میراثی خاندان نے یہ طے کیا کہ ان کے والد صاحب کسی بھی وقت اللہ کو پیارے ہو سکتے ہیں لہذا رات کو بھی ان کے ساتھ جاگ کے پہرا دینا چاہیے، اور رات کی ڈیوٹی میراثی کے تین لڑکوں کے سپرد کر دی گئی۔ اب پہلی رات قریب المرگ والد کے ساتھ ڈیوٹی کرتے ہوئے میراثی کے لڑکے چند گھنٹوں کی مسلسل خاموشی سے بیزار ہو گئے۔ اور نوجوان میراثی نے اپنے بڑے بھائی کو کہا ’بھائی جان جب تک ابا مر نہیں جاتا تب تک پولی پولی (آہستہ آہستہ) ڈھولکی نہ بجا لیں‘

کچھ یہی صورتحال تحریک انصاف کے عاقبت نا اندیش سربراہ اور ان کے خوشامدی ٹولے کی ہے۔ جن کو اب تک صورتحال کا ادراک نہیں ہو رہا کہ ’جی کا جانا ٹھہر گیا ہے‘ اور ان کی دوسری خواہش یہ ہے کہ وہ ایک آئینی عمل کو جس حد تک بے توقیر کر سکتے ہیں کر لیں کیونکہ اس سے ایک مطلق العنان شخص کی ریاست کے مفاد اور آئین سے بھی اونچی انا کی تسکین ہوتی ہے اور وہ تو آئین اور قانون سے بالاتر ہیں، ان سے کون جواب دہی کر سکتا ہے۔

8 مارچ سے 9 اپریل، پاکستانی کی پارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جس میں آئین شکنی اور لاوارث ریاست کو اجاڑنے کی ایک طویل داستان ہے جس کی تفصیلات قوم کی امانت ہیں اور آنے والے وقت میں دستیاب ہوں گی ، فی الحال موضوع بہت طویل ہو جائے گا۔ سات اپریل 2022 سپریم کورٹ آف پاکستان نے متفقہ طور پرایک تاریخی فیصلہ دیا اور تین اپریل کے انصافی قیادت کے آئین پاکستان پر خودکش حملے کو آئین سے متصادم اور کالعدم قرار دیا۔

اس کے نتیجے میں وزیراعظم اور صدر پاکستان کے اسمبلی تحلیل کرنے کے احکامات کو بھی غیر آئینی اور کالعدم قرار دیا۔ اور نو اپریل تک عدم اعتماد کی تحریک کے آئینی عمل کو بغیر لیت و لعل اور حیل و حجت کے، آئینی طریقہ کار سے مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اسی اجلاس میں نئے قائد ایوان کے انتخاب کو مشروط کر دیا ہے۔ یہ بہت سارے زاویوں سے ایک غیر معمولی فیصلہ ہے ایک طرف اس نے 75 سالہ نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے درگور کیا ہے وہیں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان نے آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے بے لچک اور غیر مرعوب رویہ اختیار کیا ہے۔ اتنے سنگین آئینی انحراف کے معاملے میں اگر تھوڑی سی بھی لچک اور نرمی کا رویہ اختیار کیا جاتا تو آنے والے وقت میں کوئی بھی طالع آزما، قانون کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا۔ جب طاقتور کی آئین شکنی سے سرف نظر کیا جاتا ہے تو معاشرے جنگل بن جاتے ہیں اور ملک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔

سات اپریل پاکستان کے آئین اور دستور کی بالادستی کا دن ہے یہ جمہوریت اور جمہور پسندوں کی کامیابی کا دن ہے۔ جہاں پر اس فیصلے کے دوررس آئینی اثرات ہیں وہیں پر اس نے عمران خان کے من گھڑت اور بے بنیاد عالمی سازش کے بیانیہ کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔ ریاست کے اعلیٰ ترین مناصب، وزارت عظمٰی، وزارت داخلہ و قانون و دیگر وزارتوں پر فائز عاقبت نا اندیش سیاستدانوں کے چھوٹے اور جھوٹے کردار کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔

آج کے معروضات ان دوستوں کے لیے ہیں جو عمران خان کے دام فریب میں مبتلا ہو گئے۔ سارے محب وطن تھے اور پاکستان کے خیر خواہ تھے اور ہیں۔ یہ واردات اس بدنصیب ملک میں پہلے بھی کئی بار ڈالی گئی، اور کامیابی سے ڈالی گئی۔ اور ہر بار لوگ سراب کو حقیقت سمجھ بیٹھے۔ بہتر اور روشن مستقبل کی امید لیے خان کے مسلسل بدلتے بیانیے کے ساتھ بھی لوگ کھڑے رہے۔ احمد فراز نے اسے یوں کہا کہ

آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے

آئیے اس خود ساختہ عالمی رہنما کی خودساختہ عالمی سازش کو سمجھنے کے لیے 2011 میں چلتے ہیں۔ پہلا بیانیہ جو خان کو ترتیب دینے کے لیے کہا گیا وہ کرپشن کا بیانیہ تھا۔ یہ آمریت، آمروں اور ان کے کاسہ لیسوں کا سب سے مجرب بلکہ صدری نسخہ ہے کہ سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں۔ اقتدار میں مال بنانے کے لیے آتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے لوگوں کو موقع دیں وہ پاکستان کی سیاست کو کرپشن سے پاک کریں گے۔ تاریخ سے ناواقف نوجوانوں کے لیے یہ بڑا دلفریب بیانیہ ہے بڑا جلدی مقبول ہوتا ہے۔

مگر اس دلیل کی سب سے بڑی فکری خیانت یہ ہے کہ کسی بینک کا سربراہ اس شعبے میں اپنی زندگی گزارنے کے بعد اہل ہوتا ہے، آرمی کے ادارے کا سربراہ تقریباً 30 سے 35 سال اسی کارزار میں گزارنے کے بعد اس عہدے کا اہل ہوتا ہے، عدلیہ میں اعلیٰ عدالت کا سربراہ تقریباً 30 سے 35 سال اس شعبے میں خدمت کرنے کے بعد اس عہدے کا اہل ہوتا ہے مگر ریاست کو چلانے کے لیے عوامی نمائندوں کے لیے یہ بیانیہ اس اصول کو یکسر الٹا دیتا ہے؟

اس بیانیے کو ترتیب دینے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ نئے اور ناتجربہ کار سیاستدان تابعداری اچھی کرتے ہیں اور کام پورا ہونے کے بعد ہٹانا آسان رہتا ہے۔ اب غور فرمائیں کہ نئے لوگ بہتر ہوں گے یا اسی شعبے میں ساری زندگی صرف کرنے والے بہتر ہوں گے جبکہ پرفارم نہ کرنے والوں کو ہٹانے کا سب سے بہترین اور آئینی بندوبست بھی موجود ہو؟ جاری ہے۔

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments